ایم کیو ایم پر الطاف حسین کا ’’ڈرائون حملہ‘‘
ایم کیو ایم پاکستان بنانے والوں کی اولاد کی جماعت ہے 18مارچ1984ء کو قائم ہونے والی جماعت آج اپنے ہی قائد الطاف حسین کے پاکستان کے خلاف نعرہ لگانے کی وجہ سے اپنے وجود کو قائم رکھنے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہے اس میںشک و شبہ کی گنجائش نہیںکہ ایم کیو ایم ’’اردو سپیکنگ‘‘ کی نمائندہ جماعت ہے’’ اردو سپیکنگ ‘‘کی اکثریت الطاف حسین کو اپنا لیڈر سمجھتی ہے یہی وجہ ہے برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے کے باوجود الطاف حسین کی ایک کال پر پورا کراچی بند ہو جاتا تھا ایک گھنٹے کے نوٹس پر کراچی کے عوام سڑکوں پر نکل آتے اگر الطاف حسین مجمع کو خاموشی اختیار کرنے کا کہیں تو لاکھوں کے اجتماع میں ’’سوئی گرنے ‘‘ کی آواز سنائی دیتی تھی الطاف حسین اس نوعیت کا کئی بار مظاہرے کر کے اپنی کمان کو منوا چکے ہیں ۔سائیکل پر روزانہ سفر کر کے لوگوں کی منت سماجت کر کے ایم کیو ایم کے لئے چندہ اکٹھا کرنے والا نوجوان دنوں میں سوا دو کروڑ مہاجروں کا لیڈر کیسے بنا ؟یہ ایک طویل داستان ہے میری ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے پہلی ملاقات1990ء میں اس وقت ہوئی جب انہوں نے میری دعوت پر راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب کے میٹ دی پریس پروگرام میں شرکت کی اس وقت موبائل فون کی سہولت نہیں تھی دو گھنٹے کے نوٹس پر راولپنڈی اور اسلام آباد سے سینکڑوں اخبارنویس ’’الطاف بھائی ‘‘کا خطاب سننے کے لئے بھاگے دوڑے گارڈن کالج کے سامنے واقع پریس کلب پہنچ گئے الطاف بھائی سے یہ میری پہلی اور آخری ملاقات تھی بعدازاں جلاوطنی کے دوران انہوں نے دو بار راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب کے میٹ دی پریس پروگرام سے خطاب کیا یہ وہ دور تھا جب الطاف حسین کے لئے ٹیلی فونک پریس کانفرنس منعقد کرنا مشکل بنا دیا گیا تھا میں نے یہ جانتے ہوئے کہ ایم کیو ایم کے قائد کومیٹ دی پریس پروگرام میں مدعو کرنے پر کچھ لوگوں کے ماتھوں پر شکنیں پڑ جائیں گی اظہار رائے کا پرچم سربلند کرتے ہوئے اپنا پلیٹ فارم فراہم کیا جس کا بارہا فاروق ستار ،حیدر عباس رضوی اور ایم کیو ایم کے دیگر رہنمائوں نے مختلف مواقع پر شکریہ ادا کیا ایم کیو ایم جو مڈل کلاس’’ اردو سپیکنگ‘‘ کی نمائندہ جماعت ہے میں ایم کیو ایم کے انداز سیاست کا کبھی قائل ہوا اور نہ ہی اس ’’مارا ماری‘‘ سیاست کو درست سمجھا لیکن جب بھی پاکستان میں ’’طاقت ‘‘ کے بل بوتے پر ایم کیو ایم کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی میں نے اس تھیوری سے اتفاق نہیں کیا کیونکہ ایم کیو ایم کو ریاستی قوت سے ختم کرنے کی کوششوں کا منفی نتیجہ نکلا ہے کراچی میں امن و امان کے لئے جہاں ریاستی اداروں کی سخت گیری ضروری ہے وہاں تمام سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کے پر امن ما حول کی فراہمی سے ایم کیو ایم کا سیاسی طور پر مقابلہ کیا جاسکتا ہے جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ایم کیو ایم پر مختلف نوعیت کے الزامات کی وجہ سے پابندی لگانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے ایک دوبار ایسے مواقع آئے ایم کیو پر پابندی تو نہ لگی لیکن اس کی قیادت کے لئے پاکستان میں کام کرنا’’ ناممکن ‘‘بنا دیا گیا اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم جنرل ضیاالحق کی تخلیق کردہ جماعت ہے لیکن میں کلی طور پر اس تھیوری سے اتفاق نہیں کرتا اس کی ایک وجہ یہ ہے کوئی شخص کسی ریاستی ادارے کی مدد سے سیاسی جماعت تو بنا سکتا ہے لیکن جب تک اس جماعت کی پذیرائی کا ماحول پیدا نہ ہو وہ پنپ نہیں سکتی کراچی میں آباد پاکستان بنانے والوں کی اولاد میں پائی جانے والی ’’بے چینی اور احساس محرومی‘‘ نے ایم کیو ایم کو اردو سپیکنگ میں جگہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا یہی اردو سپیکنگ1970ء ،1977اور 1985کے انتخابات میں قومی سیاست کرنے والی جماعتوں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء پاکستان کو ووٹ دیتی رہی ہے ایم کیو ایم کی مخالف جماعتوں کے اس الزام میں بڑا وزن ہے کہ ایم کیو ایم نے اپنی عسکری قوت کے زور پر اپنی کسی مخالف جماعت کو کراچی میں پنپنے دیا اور نہ ہی انتخاب جیتنے دیا لیکن میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر ایم کیو ایم دھاندلی نہ بھی کراتی پھر بھی اسے کراچی اور حیدرآبادکی بیشتر نشستوں پر کامیابی حاصل ہو تی کراچی میں پہلی بار تحریک انصاف پوش ایریا میں ایم کیویم کے لئے خطرہ بن کر ابھری لیکن ’’سولوفلائٹ‘‘ کی وجہ سے تحریک انصاف خاطر خواہ نتائج حا صل نہیں کر سکی ۔ عام تاثر یہ تھا کہ جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے والے سیاسی قائدین کی اپنی جماعتوں پر گرفت کمزور ہوجاتی ہے لیکن میاں نواز شریف ،محترمہ بے نظیر بھٹواور الطاف حسین کے حوالے سے یہ تھیوری غلط ثابت ہوئی ہے ابتلا کے دور میں بھی ایم کیو ایم پوری آب وتاب سے قائم رہی پچھلے 32سال کے دوران ایسٹیبلشمنٹ اور نہ ہی کوئی سیاسی جماعت ایم کیو ایم کو اتنا نقصان پہنچا سکی جتنا اس کے خالق نے اپنا ایک بیان دے کر پہنچایا ۔فاروق ستار کا شمار ایم کیو ایم کے سینئر رہنمائوں میں ہوتا ہے جو پچھلے 32سال سے الطاف حسین کی قیادت میں کام کر رہے ہیں شاید ہی ایم کیو ایم کے کسی اور لیڈر کو الطاف حسین کا اس قدر اعتماد حاصل رہا ہو ایم کیویم الطاف حسین کے ’’ڈرائون حملہ ‘‘میں جانبر تو ہو گئی ہے لیکن تاحال حالت نزع میں ہے اس کے ارکان کی توڑ پھوڑ جاری ہے فاروق ستار ایم کیو ایم کو پابندی سے بچانے کے لئے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں انہوں نے پہلے مرحلے میں ایم کیو ایم لندن آفس سے لاتعلقی کااعلان کر دیا اور کہا کہ ایم کیو ایم اپنے فیصلے پاکستان میں کرے گی اب انہوں نے الطاف حسین سے لا تعلقی کا اعلان کر دیا پہلے وہ الطاف حسین کوقائد تحریک کہا کرتے تھے پھر انہیں بانی تحریک کہنے پر اکتفا کیا اب ایسی بھی کیا ’’لاتعلقی ‘‘وہ الطاف حسین کو ’’قائد‘‘ اور بانی کہنا ہی بھول گئے کراچی میں ایم کیو ایم کو جس طرح ملیا میٹ کیا جا رہا اس سے ایم کیو ایم کے کارکن سہم گئے ہیں لیکن ان کے لوگوں کے دلوں سے الطاف حسین کو نکا لاجاسکا اور نہ ہی کوئی دوسری جماعت ایم کیو ایم کی جگہ لے سکتی ہے الطاف حسین کی غیر ذمہ دارانہ تقاریر کی وجہ سے ٹیلی کاسٹ یا شائع کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے لیکن’’ ذہنی دبائو‘‘ کی حالت میں پاکستان اور افواج پاکستان کے بارے میں ہرزہ سرائی نے ایم کیو ایم کو دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کر دیا ہے پاکستان بنانے والوں کی اولاد کے قائد نے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کر کے ان کے پیروکاروں کو اپنی پاکستانیت ثابت کرنے کے لئے ’’پاکستان زندہ باد‘‘کا نعرہ لگانے پر مجبور کر دیا فاروق ستار ہزاربار الطاف حسین سے لا تعلقی کا اعلان کریں الطاف حسین کی’’ آشیرباد ‘‘کے بغیر ان کی کوئی حیثیت نہیں فاروق ستا ر نے پتہ کی بات کہی ہے کہ ’’الطاف حسین نے جو کچھ کہا ہے وہ ذہنی پریشانی کا شاخسانہ ہے ‘‘ ۔ماضی میں بھی انہوں اسی طرح کا طرز عمل کئی بار اختیار کیا جس کے بعد انہیں معافی مانگنا پڑی اب کی بار تو انہوں نے ’’مور اوور‘‘ کر دیا کوئی محب وطن پاکستانی مادر وطن کے بارے میں اس طرح کے الفاظ برداشت نہیں کر سکتا جو الطاف حسین نے کہے ہیں۔ بظاہر فاروق ستار کا ایم کیو ایم لندن سے الگ ہونے فیصلہ اہمیت کا حامل ہے لیکن سوال یہ ہے ان کی الطاف حسین کی ’’آشیرباد ‘‘ کے بغیر ان کا ایک قدم چلنا مشکل ہے ایم کیو ایم میں توڑ پھوڑ یا ایک اور ایم کیو بنانے کی کوشش کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا اس وقت چار ایم کیو ایم قائم ہو چکی ہیں ماضی میں بھی اس نوعیت کے ناکام تجربات کئے گئے جن سے ایم کیو ایم کو ختم نہیں کیا جا سکا اب بھی ایم کیو ایم کے ہاتھ پائوں باندھ کر اس کے ٹکڑے کرنے کا کھیل کھیلنے کی بجائے پاکستان بنانے والوں کی اولاد کو ان سے ’’پاکستان زندہ باد ‘‘ کا نعرہ چھیننے والوں سے لڑنے کا موقع دینا چاہیے پاکستان کی ایسٹیبلشمنٹ کے لئے بہت سے مسائل خود بخو د حل ہو جائیں گے یہ طے شدہ امر ہے جس نے پاکستان میں رہنا ہے اسے’’ پاکستان زندہ باد ‘‘ کا نعرہ لگانا ہو گا پاکستان بنانے والوں کی اولاد کو ہی پاکستان کے خلاف نعرہ لگانے والوں کے لئے پاکستان کی سرزمیں تنگ کرنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔