’’افغان مسئلہ کے حل کیلئے پاکستان کو ادارہ جاتی کوششوں سے بتدریج الگ کیا جا رہا ہے‘‘
اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) افغان مسئلہ کے حل کیلئے دوطرفہ، علاقائی اور عالمی سطح پر ہر قسم کی ادارہ جاتی کوششوں سے پاکستان کو بتدریج الگ کیا جا رہا ہے اور بظاہر امریکہ اس مہم کا سرخیل ہے۔ پاکستان کی جگہ اب بھارت کو دی جا رہی ہے۔ ایک مستند حکومتی ذرائع نے اس معاملہ کی تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’ہم افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کیلئے مخلصانہ کوششیں کرتے رہیں گے اور پاکستان کے کردار کا انحصار اس معاملہ پر ہو گا کہ اس مسلہ کے فریق پاکستان سے کیا توقع رکھتے ہیں ‘‘۔ اس ذریعہ کے مطابق افغان مسلہ کے حل کیلئے پاکستان کی خواہش بجا لیکن پاکستان کو اس سلسلہ میں اجتماعی اور ادارہ جاتی کوششوں سے فاصلے پر رکھا جا رہا ہے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ اگلے ماہ جنرل اسمبلی کے اجلا س کے دوران امریکہ، بھارت اور افغانستان، کے وزراء خارجہ نئے سہ فریقی بندوبست کے تحت مذاکرات کریں گے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کو امن کوششوں اور انسداد دہشت گردی کی کوششوں سے باہر نکال کر امریکہ کو کتنی کامیابی ملتی ہے۔اس ذریعہ کے مطابق مدت ہوئی پاکستان، امریکہ اور افغانستان کے فوجی سربراہان پر مشتمل سہ فریقی فوجی کمیشن غیر اعلانیہ طور پر ختم کر دیا گیا کیونکہ اس کمیشن کی بدولت ہی افغانستان کی نیشنل آرمی اور پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کے درمیان بہترین روابط پروان چڑھے۔ اسی طرح خاصے جوش و جذبہ سے پاکستان، چین، امریکہ اور افغانستان پر مشتمل چار فریقی میکنزم تشکیل دیا گیا جسے افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کرانے کا فریضہ سونپا گیا تاہم مذاکرات کا ایک ہی دور مری میں منعقد ہوا جس کے بعد بات چیت کی ہر کوشش ناکام بنائی گئی اور آخر میں یہ میکنزم بھی غیر فعال بنا دیا گیا۔ افغانستان کے سیاسی و معاشی مسائل کے حل کیلئے استنبول پراسس کے نام سے ایک ڈھیلا ڈھالا سا بندوبست ابھی باقی ہے جس میں بھارت کو بھی شامل کیا گیا ہے تاہم یہ اتنی اہمیت کا حامل نہیں ہے جبکہ توقع کی جا رہی ہے کہ امریکہ میں نئے صدر کے انتخاب کے بعد ہی افغانستان کے بارے میں ایک فیصلہ کن اور واضح پالیسی سامنے آئے گی۔