لائیو سٹاک اور ویٹرنری ڈاکٹر صاحبان
مکرمی! پاکستان کو آزاد ہوئے تقریباً 68 سال ہو گئے لیکن ملک میں ادارے جن کا رزلٹ زیرو اور کام سست روی کا شکار ہے، ان میں سے ایک لائیو سٹاک کا محکمہ ہے یہ محکمہ جس کا کام دیہات گائوں گائوں جا کر جانوروں کو چیک کرنا اور حفاظتی ٹیکے لگانا جانوروں کو ادویات دینا ہے لیکن ہمارے ہاں ویٹرنری ہسپتال تو گورنمنٹ نے بنا دیئے ہیں وہاں پر ڈاکٹر صاحبان ڈیوٹی بھی دیتے ہیں، لیکن زیادہ تر خوش گپیوں میں لگے رہتے ہیں علاج کم نہ دوائی نہ کسی کی بات سنتے ہیں بس تنخواہ کا انتظار ہوتا ہے۔ کسی غریب کی بھینس بیمار ہو جائے تو ڈاکٹر صاحبان اس کی بات سنے بغیر ادویات کی ایک لمبی چوڑی لسٹ تھما دیتے ہیں کہ فلاں سٹور سے جا کر لے لو۔ نہ حفاظتی ٹیکے لگاتے ہیں اور نہ ہسپتال سے دوائی دیتے ہیں جو ہسپتال کے سٹور میں پڑی پڑی ایکسپائر ہو جاتی ہیں ایک اور بات ہمارے علاقہ بچیکی میں جتنا بھی گوشت ذبح ہوتا ہے ان کو کوئی ویٹرنری ڈاکٹر چیک نہیں کرتا پتہ چلے کہ یہ حلال ہے یا حرام ان ویٹرنری ڈاکٹر صاحبان کا غریب زمینداروں کو کیا فائدہ گورنمنٹ نے کٹا سکیم شروع کی تھی غریبوں کیلئے غریبوں کو جانور دیں گے اور غریب پال پوس کر بڑا کریں گے اور گورنمنٹ انکو مالی امداد دے گی لیکن وہ تمام کے تمام جانور امیروں میں تقسیم کر دیئے گئے غریب بیچارہ انتظار کرتے رہ گیا وزیر اعلیٰ سے اپیل ہے کہ ان ویٹرنری ڈاکٹروں کو ہسپتالوں سے ہدایت کریں کہ باہر نکل کر گائوں گائوں جا کر جانوروں کو چیک کریں اور جس جانور کو کوئی بیماری ہو یا حفاظتی ٹیکے لگانے ہوں تو وہ لگائیں۔ (رانا رضا محمود خاں منج بچیکی)