پاکستان دشمن تقاریر اور حکومت کی خاموشی
یوم آزادی کے موقع پرتمام بین الاقوامی قوانین، روایات اور آداب کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی نے جس انتہاء پسندانہ انداز میں پاکستان مخالف تقریر کی اس سے کسی قسم کے شک و شبہے کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ بھارت کو نہ صرف خطے میں امن سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ دہشت گردوں کی فنڈنگ اور پشت پناہی جیسی مکروہ حرکتوںپر ندامت کی بجائے فخر محسوس کرنا ان کا طرہء امتیاز ہے۔
مکتی باہنی کی سپورٹ کے حوالے سے بھارتی کردار پر فخر کا اظہار تو وہ پہلے ہی ڈھاکہ جا کر ایوارڈ وصول کرتے ہوئے کر چکے ہیں۔مگر ایک ایسے وقت میں جبکہ مودی کے بیان کے خلاف پاکستان میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری کی پاکستان کی سا لمیت کے خلاف یاوہ گوئی ہرگز ناقابل فہم نہیں اور اسے سیاق و سباق سے ہٹ کر نہیں لیا جا سکتا۔ متحدہ قومی موومنٹ نامی سیاسی تحریک کے بانی کی جانب سے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کوئی نئی بات نہیں وہ متعدد بار اس گھناؤنی حرکت کے مرتکب ہو چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس بار ڈاکٹر فاروق ستار سمیت تحریک کے سرکردہ راہنماء خود کو اس صورتحال سے علیحدہ رکھنے کی کوشش میں ہیں اور اپنے قائد کی عاقبت نااندیشانہ حرکت سے کسی حد تک لا تعلقی ظاہر رہے ہیںحالانکہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ایم کیو ایم ایک ایسی جماعت ہے جس میں شمولیت پر ایک خاص قسم کا حلف نامہ پر کرنا پڑتا ہے جس پر دستخط کرنے کے بعد کارکن ایم کیو ایم کا ہی ہو کر رہ سکتا ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم میں داخلے کے راستے کھلے مگر وہاںسے نکلنے کے راستے بند ہوتے ہیں۔ قاتلانہ حملے سے بچ جانے کے بعد رشید گوڈیل نے بھی کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ برائی کا ابتداء ہی میں خاتمہ کرنے کی بجائے یہاں تک نوبت کیوں آئی۔ حکومتیں کیوں چشم پوشی کرتی رہیںاور کیوں عوام ہی سے ثبوت مانگتی رہیں۔
ذوالفقار مرزا نے سر پر قرآن رکھ کر باتیں کیں،کسی نے اہمیت نہ دی ۔مصطفی کمال نے متحدہ سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے راء سے فنڈنگ جیسے الزامات کی تصدیق کی مگر اسے بھی درخوراعتناء سمجھنا تو درکنار حقارت سے ٹھکرا دیا گیا۔
ایسے لگتا ہے جیسے قانونی مجبوریاں راستے میں حائل ہیں جن کی بنا پر مختلف حکومتیں مصلحتوں سے کام لیتی آئی ہیں ۔جہاں تک قانون کا تعلق ہے قانون تو ہمارے سامنے ہے ۔پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء سیکشن 15کہتا ہے کہ اگر وفاقی حکومت سمجھتی ہے کہ کوئی سیاسی جماعت بیرونی فنڈنگ پر چل رہی ہے یا پاکستان کی سا لمیت کے خلاف کام کر رہی ہے یا دہشت گردی میں ملوث ہے تو ایسی صورت میں وفاقی حکومت اس امر کا ڈیکلیریشن بذریعہ گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کرے گی جس کے بعد پندرہ دن کے اندر وفاقی حکومت سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیجے گی اور اگر سپریم کورٹ وفاقی حکومت کے ڈیکلیریشن کی توثیق کرتی ہے تو ایسی سیاسی جماعت منسوخ ہوجائیگی اور اس سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی اگر بر وقت مستعفی نہ ہوں تو باقی مدت کیلئے نا اہل تصور ہوں گے۔ آئین کا آرٹیکل سترہ(دو) بھی یہی ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد کرتا ہے۔اب اگر کوئی کہے کہ یہ وفاقی حکومت کی صوابدید ہے اور وہ کسی پاکستان مخالف جماعت یا لیڈر کے خلاف ایکشن لینے کی پا بند نہیں تو یہ خام خیالی ہے۔
ہمیں صوابدید اور من مرضی میں تفریق کو سمجھنا ہوگا۔ آئین کے آرٹیکل 5 کے مطابق ہر شہری ریاست سے وفاداری کا پابند ہے ،اس کا واضح مطلب ہے کہ ریاستی و حکومتی اہلکار اور سربراہ سمیت اندرون ملک یا بیرون ملک رہائش پذیر ہر شہری ریاست سے وفاداری نبھانے کا پابند ہے ۔ لہٰذا صاف ظاہر ہے کہ سیاسی عہدیداروں کی ملک دشمن سرگرمیوں سے مسلسل چشم پوشی کر کے حکومت اپنی اس ذمہ داری سے عہدہ براء نہیں ہو سکتی۔اب آئینی اور قانونی پوزیشن تو آپ کے سامنے ہے۔ہمیں توکوئی آئینی وقانونی مجبوری نظر نہیں آرہی۔
ظاہر ہے سیاسی اور بین الاقوامی مجبوریوں کا امکان رد کرنا مشکل ہے اور اسے ہی دوسرے لفظوں میں مصلحتوں کا نام دیا جاتا ہے۔لیکن اب وقت آگیا ہے کہ مصلحتوں کی بجائے قومی مفاد میں فیصلے کئے جائیںورنہ عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہونگے کہ جو ملک دشمن عناصر کا ساتھ دیتا ہے، دہشت گردی میں معاونت کرتا ہے اور ایسا کر کے وہ سہولت کار کے زمرے میںشمار ہوتا ہے۔ پاکستان کی سیکورٹی فورسز اپنی ذمہ داریوں سے باخبر ہیں آپریشن کامیابی سے جاری ہے عوام جنرل راحیل شریف کی مثبت حکمت عملی کو سراہ رہے ہیں اور بخوبی جانتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں سیکورٹی فورسز کی غیرجانبداری شک و شبہ سے بالا ہے مگرجس کا جی چاہے ہمیں درس دینے لگتا ہے کہ ہماری سرزمین دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہو۔
کیا ہم کسی سے نہیں پوچھ سکتے کہ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل اور منی لانڈرنگ جیسے سنگین مقدمات میں نامزدہونے کے باوجود ایک دوہری شہریت کا حامل شخص برطانیہ میں بیٹھ کر پاکستان کی سا لمیت کے خلاف نفرت پر مبنی تقاریر کس قانون کے تحت کرتا آ رہا ہے۔ کیا ایسی حرکت کا نوٹس لینا برطانوی حکومت کی ذمہ نہیں؟کیا وہاں بیٹھ کر پاکستان کی سا لمیت کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو کھلی چھٹی دی جا سکتی ہے؟اگر ایسا نہیں تو براہمداغ بگٹی اور حربیار مری جیسے لوگ وہاں کیا کر رہے ہیں؟ وہ پاکستان کی سا لمیت کے خلاف کھلم کھلابات کر رہے ہیں۔ اب تو وزیر اعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری واشگاف الفاظ میں بتا چکے ہیں کہ ان کے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی راء انہیں فنڈنگ کر رہی ہے تو کیا وفاقی حکومت اب بھی چشم پوشی کی حکمت عملی جاری رکھے گی اگر نہیں تو کیا قوم کو بتایا جائے گا کہ حکومت اس حوالے سے کیا پیشرفت کر رہی ہے؟