• news
  • image

’’بے نیازیاں‘‘

گزشتہ دنوں ڈاکٹراجمل نیازی کا کالم "کہ ہوتے جاتے ہیں قتل اور کم نہیں ہوتے"پڑھنے کا اتفاق ہوا۔سب سے پہلے تو نیازی صاحب جنرل ضیاء الحق سے متاثر نظر آتے ہیں گویا جنرل ضیاء الحق کی قسمت اچھی ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی پسندیدہ شخصیت ہیں۔ موصوف ضیاء کے مشن کی بات کرتے ہیں۔ بلا شبہ یہاں جنرل ضیاء کے بطور جنرل موضوع کو زیر بحث نہیں لا سکتے۔ البتہ ریاست پاکستان کے سربراہ کی حیثیت سے تاریخی اعتبار سے کافی کچھ لکھا جا سکتا ہے کیونکہ انکے دور کی پالیسیوں کی بدولت پاکستان نے کافی مشکل حالات کا سامنا کیا۔ کسی بھی حکمران کی پالیسیوں کا اثر قلیل المدت اور کثیر المدت ہوتا ہے اور ملک کے مفاد میں بہتر پالیسی وہی ہوتی ہے جسکے مثبت نتائج دور رس ہوں۔ ضیاء کے دور کے بارے میں تاریخ شاہد ہے کہ وہ معاشی، سیاسی لحاظ سے ملک کے فیصلے خود کرتے تھے اس لیے انکے دور میں اچھا برا جو بھی ہوا انکے ذمہ دار وہ خود تھے۔ تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے مورخین نے کچھ تلخ حقیقتیں بیان کی ہیں۔ آئی اے رحمان اپنے مضمون Master of Illusion میں لکھتے ہیں کہ ضیاء کے دور میں خارجہ پالیسی اور معاشی پالیسیوں کی بنیاد خیالی پیکر سے مزین تھی۔ بالکل اسی طرح جس طرح لوگوں کو اسلام کے نفاذ کے بارے میں اندھیرے میں رکھا گیا۔ اسکی مثال اس بات سے دی جا سکتی ہے کہ ضیاء الحق نے عوام الناس کو اس فریب میں رکھا کہ اس سے پہلے اسلام کے نفاذ کی کوشش نہیں کی گئی جبکہ اس زمانے کے بہت سے لوگوں کو یاد ہو گا کہ شریعت ایکٹ 1937ء اور 1948میں اسی طرز پر قانون رائج کیا گیا اور 1973کے آئین میں اسلام کو ریاست کے مذہب کا درجہ دیا گیا جو آج بھی آئین کا حصہ ہے اور اس میں کسی کو شک نہیں کہ پاکستان کا نظریہ اسلام کی بنیاد پر مبنی تھا اور اسلام ایک امن پسند اور رواداری کا مذہب ہے۔ سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو ضیاء نے اپنے 11سالہ دور حکومت میں سے 6سال سیاسی پارٹیوں پر بین کیے رکھا۔ جس کا پاکستان کو سیاسی لحاظ سے فائدے کی بجائے نقصان ہوا اور اسکی بدولت اچھی اور صحت مند سیاست فروغ نہ پا سکی۔ دوسری طرف خارجہ پالیسی کے میدان میں افغان مجاہدین کے فروغ کی پالیسی کے نتائج آج تک پاکستان اور اسکے عوام بھگت رہے ہیں اور آئندہ کئی دہائیوں تک بھگتتے رہیں گے۔
آگے چل کر نیازی صاحب پھر ضیاء الحق کے مشن کا بلا واسطہ اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وزیر داخلہ نے افغانوں کی جو افغان جنگ اور اسکے بعد امریکہ کی دہشتگردی کیخلاف جنگ کے نتیجے میں پاکستان میں مقیم ہیں انکی تصدیق کرانے کی مہم شروع کی ہے۔ اگر پاکستان افغان جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لیتا تو افغان مہاجرین اور انکے قیام کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل سے ضرور بچ جاتا۔ ضیاء دور میں پاکستان نے CENTOاور Non Alignment Movementمیں شرکت کی جس کی بدولت پاکستان امریکہ کی کلائنٹ ریاست بن گیا۔ بلا شبہ ضیاء کا مشن اسلام کا نفاذ تھا جس کے تحت آئین میں بھی تبدیلیاں کی گئیں لیکن اس مشن کے نفاذ میں گیارہ سال کے عرصے میں کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہ آ سکا۔ مثبت اس لیے نہیں تھا کیونکہ اسلام کا نفاذ مشن کے ذریعے نہیں ہو سکتا۔ ہمارے نبی ﷺ نے اسلام کا نفاذ پیار اور شفقت اور امن سے کیا۔ جاہلیت سے نمٹنے کیلئے تلوار کی بجائے قول حسنہ کو افضل قرار دیا۔ چور کا ہاتھ کاٹنے سے پہلے عوام الناس کیلئے روزگار اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنایا۔ نواز شریف جنرل ضیاء الحق کے مشن کو آگے تونہیں بڑھا سکے ۔ ہاں البتہ ضیاء الحق کے مشن کے نتیجے میں پیدا ہونیوالے گھمبیر مسائل سے آج بھی نمٹنے کیلئے کمر باندھے ہوئے ہیں۔ ان گھمبیر مسائل میں دہشتگردی کا مسئلہ سر فہرست ہے۔ افغان جہاد اور اسکے نتیجے میں کلاشنکوف کلچر کا فروغ بھی اس مشن کا حصہ ہے۔ یہ اسی مشن کا نتیجہ ہے کہ اسلام پوری دنیا میں ایک شدت پسند اور انتہا پسند مذہب کیساتھ منسوب ہونے لگا۔ غیروں کی لڑائی لڑتے لڑتے اپنے گھر میں جنگ و جدل کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ مذہبی فرقہ بندی اور جہادی تنظیمیں اسلام کے نام پر فروغ پانے لگیں۔ آج مسلمان دنیا بھر میں شدت پسند سمجھے جاتے ہیں۔ گو آپریشن ضربِ عضب کے نتیجے میں دہشتگردی پر کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے لیکن بہت کچھ کرنا باقی ہے۔اس کالم میں ایک اور بات نے مجھے چونکا دیا کہ بھارت ہمارے کسی حکمران سے خوفزدہ تھا تو وہ ضیاء الحق ہے۔ جہاں تک حقائق کا تعلق ہے تو بھارت اور پاکستان کے درمیان طاقت کا توازن 28مئی 1998کو قائم ہوا جب پاکستان نے نواز شریف کے دورِ حکومت میں ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کی میلی آنکھ سے پاکستان کو محفوظ کیا اور دشمن پر اپنی دھاک بٹھائی اور پاکستان ایٹمی قوت رکھنے والا پہلا اسلامی ملک کہلایا۔نیازی صاحب پرویز رشید سے شکوہ کناں ہیں‘ دونوں اچھے دوست رہے ہیں‘ ذمہ داریاں اپنی جگہ‘ دوستی برقرار رہنی چاہیے۔

نازیہ ذوالفقار

نازیہ ذوالفقار

epaper

ای پیپر-دی نیشن