الطاف حسین کی نفرت انگیز تقریر کیا رنگ لائے گی؟
کراچی میں گزشتہ پیر کے روز اچانک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ اس کی توقع کئی روز سے کی جارہی تھی۔ متحدہ قومی موومنٹ کئی روز سے بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے بیٹھی تھی۔ اس کی کوریج کے لیے عام حالات سے زیادہ انتظامات تھے اور یہ انتظامات بالآخر چھٹے روز کام آگئے جب متحدہ قومی موومنٹ کے بانی اور قائد الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف انتہائی غلط اور قابل گرفت تقریر کی۔ اس تقریر پر وہاں موجود متحدہ کے تمام رہنمائوں اور کارکنوں نے واہ واہ کی۔ الطاف حسین نے نام لے کر دو تین ٹی وی چینلز پر حملے کی ہدایت دی اور سب نے اس پر لبیک کہا اور چند لمحوں میں وہ سب کچھ ہوگیا جس کی 6 روز سے تیاری تھی۔ پاکستان کے خلاف زہر اگلنے والے لیڈر کی باتیں سننا اور اس پر واہ وا کرنا بھی جرم میں شرکت کے مساوی ہے لیکن رات کو یہ سب گرفتار ہوئے اور لانڈری سے گزر کر اگلے روز سب پاک صاف ہوکر متحدہ موومنٹ پاکستان کا لندن سے اظہار لاتعلقی کررہے تھے۔ الطاف حسین کے خلاف مقدمہ بن گیا ہے۔ نائن زیرو سیل کردیا گیا ہے۔ فاروق ستار‘ عامر لیاقت اور دوسرے گرفتار شدگان کسی ایسے پانی کے دھارے سے گزر کر آئے کہ وہ بھی پاک صاف ہوگئے۔
دریدہ دہنی کا مظاہرہ کرنے کی شہرت رکھنے والے ایم کیو ایم کے برطانوی نژاد قائدالطاف حسین کی ایک مرتبہ پھر کراچی میں آگ لگانے کی سعی افسوسناک ہے اور سب سے تکلیف دہ اور ناقابل برداشت نعرے لگوائے۔ جس کے بعد اس حوالے سے دوسری رائے ممکن ہی نہیں کہ ایم کیو ایم پر پابندی لگائی جائے۔ پاکستان میں موجود قیادت ڈر و خوف یا کسی بھی دوسری وجہ کے باعث اپنے قائد کو روک نہ پائے تو ان کے پاس پارٹی سے علیحدگی کا بہرحال راستہ موجود ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ایم کیو ایم کے منحرفین کی زندگیاں دائو پر ہوتی ہیں لیکن ملک سے غداری کا اس کے باوجود عذر پیش نہیں کیا جاسکتا۔ ایم کیو ایم سے وابستگی رکھنے والوں کی مشکلات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے لیکن اب اس کے سوا کوئی چارہ کار دکھائی نہیں دیتا کہ وہ یا تو اپنے قائد اور کارکنوں کے ارتکاب غداری کے باعث صورتحال کو بھگتیں یا پھر لاتعلقی اور علیحدگی اختیار کرلیں۔ ایم کیو ایم کے لئے اس طرح کی صورتحال قبل ازیں بھی بنی تھی اور مبینہ جناح پور کے نقشے برآمد کرنے والوں نے بعد میں اپنے اس اقدام کو ازخود غلط گردان کر ایم کیو ایم کو ناجانے کس بناء پر کلین چٹ دی تھی لیکن اب صورتحال پہلے سے بہت مختلف ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد جس طرح بار بار ملکی سالمیت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف منافرت پھیلانے کے مرتکب ہورہے ہیں وہ ریکارڈ پر ہے۔ ایم کیو ایم کی میڈیا کے خلاف منافرت اور میڈیا ہائوسز پر حملہ ان کی مایوسی کی انتہا اور ناکامی کے اعتراف کا مظہر ہے۔ ماہرین کے مطابق نفرت اور تشدد کا پرچار کرنے کے حوالے سے برطانوی قوانین واضح ہیں کسی بھی مجرمانہ الزامات کی تحقیقات کرنا سکاٹ لینڈ پولیس کی ذمہ داری ہے۔ماہرین کے مطابق پاکستان کے پاس الطاف حسین کے خلاف مضبوط کیس ہے اگر حکومت الطاف حسین کے خطاب کو سنجیدگی سے لے اور اسے ان کی دیگر چھ قابل اعتراض تقریروں کے ساتھ سامنے رکھا جائے تو ثابت ہوسکتا ہے کہ برطانوی قوانین کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ حکومت کو ان امکانات کا جائزہ لے کر برطانیہ میں مقیم الطاف حسین کے خلاف مقدمہ دائر کرکے قانون کے مطابق سزا دلوانے میں تاخیر کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ جہاں تک ان کی تقریر کے بعد کے حالات کا تعلق ہے ایم کیو ایم نے آبیل مجھے مار کا جو مظاہرہ کیا ہے اس کے بعد میڈیا اور عوام میں ان کے لئے کسی ہمدردی کا نہ پایا جانا فطری امر ہے۔ وزیراعظم نوازشریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ذمہ دار عناصر کے خلاف سخت اقدامات کی ہدایت کی ہے جس کے بعد راتوں رات کی کارروائیاں سامنے آئیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی کارروائیاں وقتی ضرورت ہیں لیکن بعد ازاں ایک مرتبہ پھر ان عناصر کو سر اٹھانے کا موقع ملتا رہا ہے۔ ہمارے تئیں اس مسئلے کا حل یہی رہ گیا ہے کہ ایم کیو ایم پر پابندی عائد کی جائے اور ملکی سالمیت کے خلاف سازشوں کے الزامات کے تحت مقدمات قائم کئے جائیں۔ اس ضمن میں بہتر صورت یہی ہوگی کہ جو لوگ ان سے برأت کا اعلان کریں اور وطن عزیز سے وفاداری کا حلف اٹھائیں اور ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کرکے عملی طور پر اس امر کا ثبوت دیں کہ ان کا خلاف آئین اور خلاف قانون نعروں اور دھمکیوں سے کوئی علاقہ نہیں تو ان سے نرم رویہ اختیار کرنے کی گنجائش ہونی چاہیے۔ کراچی کے عوام کا تحفظ اور میڈیا کو تحفظ دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ رینجرز اور پولیس کو اختیارات اور دائرہ کار میں الجھانے کی بجائے ان کی پشتبانی کی ضرورت ہے تاکہ وہ اعتماد کے ساتھ صورتحال سے نمٹ سکیں۔
دریں اثناء وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف کسی شخص کا برطانوی سرزمین کا استعمال قابل مذمت ہے، برطانیہ سنگین جرم میں ملوث شخص کو قانون کے دائرے میں لانے کے لئے پاکستان کی معاونت کرے۔ وزیرداخلہ نے برطانوی وزارتِ داخلہ کے اعلیٰ حکام کے ساتھ الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر پر تبادلہ خیال کیا۔ اس سے پہلے الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمے کی تحقیقات بہت سست رفتاری سے ہوتی رہی ہیں۔ لندن میں ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل بھی ہوا تھا، جس میں ایسے لوگ ملوث پائے گئے، جن کے رابطے کسی نہ کسی طرح ایم کیو ایم کے ساتھ تھے۔ ’’را‘‘ سے فنڈنگ کے ثبوت تو مصطفی کمال پیش کرتے رہتے ہیں ، جو ایم کیو ایم کے گھر کے بھیدی ہیں۔اس پس منظر میں تحقیقات کو کچھوے کی رفتار سے نہیں چلنا چاہیے، چودھری نثار علی خان کہتے ہیں کہ کراچی کو یرغمال نہیں بننے دیا جائے گا تو پھر ضرورت ہے کہ وہ برطانوی حکام کے ساتھ نتیجہ خیز رابطہ کریں۔