وائی ایم سی اے اور پاک ٹی ہاؤس کی یادیں
13اگست کے ’’نوائے وقت‘‘ میں سلیمان کھوکھر کا کالم ’’لاہور کے سیاست خانے۔ وائی ایم سی اے ہال‘‘ پڑھ کر چند باتیں یاد آ گئیں جو قارئین سے شیئر کر رہا ہوں۔ وائی ایم سی اے ہال میں سیاسی جلسے ہوتے تھے جبکہ وائی ایم سی اے کے کمرہ نمبر ایک میں حلقہ ارباب ذوق اور کمرہ نمبر دو میں پنجابی ادبی سنگت کے ہفت روزہ اجلاس ہوتے۔ 1971ء سے 1974ء تک راقم الحروف پنجابی ادبی سنگت کا سیکرٹری رہا۔ اس دوران میں نے بعض اہم اجلاس کرائے۔ بعض اجلاس حلقہ ارباب ذوق کے اشتراک سے بھی کرائے گئے مثلاََ مارچ 1973ء میں شاہ حسینؒ کے عرس کے موقع پر خصوصی اجلاس کرایا گیا جسکی صدارت صوفی تبسم نے کی۔ اظہار خیال کرنے والوں میں عارف عبدالمتین، شاہد محمود ندیم، فخر زمان، حسین شاہد، شفقت تنویر مرزا اور محمد عظیم شامل تھے۔ وائی ایم سی اے انتظامیہ نے کچھ عرصہ دونوں تنظیموں پر اجلاس منعقد کرنے پر پابندی لگا دی۔ اس دوران میں پنجابی ادبی سنگت کے اجلاس وائی ایم سی اے ریسٹورنٹ اور حلقہ ارباب ذوق کے پاک ٹی ہاؤس میں ہونے لگے۔ وائی ایم سی اے ریسٹورنٹ میں سنگت کے تحت نامور مصور، خطاط اور شاعر صادقین کے ساتھ شام منائی گئی جس کی صدارت رفیق احمد باجوا ایڈووکیٹ نے کی۔ پروفیسر ایرک سپرین، مشتاق بٹ ایڈووکیٹ، راجا رسالو و دیگر نے اظہار خیال کیا۔ پنجابی سنگت کے تحت راقم نے استاد امانت علی خاں کی یاد میں گول با غ میں 2نومبر 74ء کو جلسہ کرایا۔ استاد امانت علی خاں 18ستمبر1974ء میں وفات پا گئے تھے۔ سٹیج پر فیض احمد فیض، استاد دامن اور استاد فتح علی خاں بیٹھے تھے۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کا دور حکومت تھا۔ سنگت کے زیر اہتمام ویت نام کی حمایت میں جلوس نکالا گیا جو گول باغ سے اسمبلی ہال تک پہنچا۔ مقصدویت نام میں امریکا کی زیادتیوں کا احتجاج تھا۔ پنجابی ادبی سنگت میں جو شاعر، ادیب اور دانشور مستقل شرکت کرتے ان میں شفقت تنویر مرزا، اکبر لاہوری، راجا رسالو، نجم حسین سید، محمد آصف خاں، شریف صابر، عین الحق فرید کوٹی، حسین شاد، سائیں اختر، کنول مشتاق، ہجویری بھٹی، اختر ہاشمی، سبط الحسن ضیغم، غیاث چودھری، پرویز احمد ہاشمی، ڈاکٹر اسلم رانا، مشتاق ہاشمی، ریاض راجی، رمضان شاہد، سلیم خاں گمی و دیگر شامل تھے۔ پاک ٹی ہاؤس میں جو ادیب اور شاعر تقریباََ روزانہ آتے ان میں انتظار حسین، اسرار زیدی، مبارک احمد، ڈاکٹر سہیل احمد خان، زاہد ڈار، حبیب جالب، مستنصر حسین تارڑ، شہرت بخاری، انجم رومانی، شفقت تنویر مرزا، راجا رسالو، سلیم شاہد، یوسف کامران، محمد آصف خان، ڈاکٹر انور سجاد، احمد مشتاق، رشید مصباح اور راقم شامل تھے۔ حلقہ ارباب ذوق کی دو مزید شاخیں بن گئیں۔ حلقہ ارباب ذوق (ادبی) اور حلقہ ارباب ذوق (مرکز) حلقہ ارباب ذوق (ادبی) بھٹو دور میں بنا۔ اس حلقے میں حبیب جالب خاص طور پر شرکت کرتے۔ حلقہ ارباب ذوق (مرکز) مبارک احمد کا حلقہ تھا۔ اس کے اجلاس میکلیگن روڈ کے ایک ریسٹورنٹ میں ہوتے تھے۔ اس حلقے کے عہدے داروں میں ڈاکٹر سعادت سعید اور راقم شامل تھے۔ پاک ٹی ہاؤس کے قریب چائنیز لنچ ہوم تھا۔ یہاں تہ خانے میں پنجابی ادبی پروار کے اجلاس منعقد ہوتے۔ یہ اجلاس ڈاکٹر شہباز ملک اور ڈاکٹر بشیر گورایا کی زیر سرپرستی منعقد ہوتے تھے۔ سیکرٹری عمران نقوی تھے۔ چائنیز لنچ ہوم میں شورش کاشمیری، ملک معراج خالد، حبیب جالب اور دیگر شخصیات سے میری ملاقاتیں رہیں۔ پاک ٹی ہاؤس کے دو بیرے الٰہی بخش اور شریف بنجارہ، ادیبوں، شاعروں میں بہت مقبول تھے۔ اگر کسی ادیب شاعر کے پاس چائے کا بل ادا کرنے کیلئے پیسے نہ ہوتے تو وہ ان دونوں میں سے کسی بیرے سے ادھار کر لیتے۔ شریف بنجارہ باورچی بھی تھا۔ اس نے نثری شاعری شروع کر دی۔ چنانچہ راقم نے جون 1980ء میں شریف بنجارہ کیساتھ شام منائی جس میں اس کا کلام سنا گیا اور تحائف پیش کیے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے برسر اقتدار آنے سے قبل کا واقعہ ہے۔ حبیب جالب اچھرہ جیل میں نظر بند تھے۔ اخبار میں اپیل شائع ہوئی کہ جو حضرات، جالب کے بیوی بچوں کی اعانت کرنا چاہیں وہ رقم لفافے میں بند کر کے ٹی ہاؤس کے بیرا الٰہی بخش کو پہنچا دیں۔ ایک روز میں ٹی ہاؤس میں بیٹھا تھا کہ باہر ایک کار آ کر رکی۔ ڈرائیور باہر آیا اور الٰہی بخش کے بارے میں دریافت کیا۔ الہی بخش باہر گیا۔ کار میں بیٹھے شخض نے شیشہ نیچے کیا اور لفافہ الٰہی بخش کو دے دیا۔ اوپر لکھا ہوا تھا۔ ’’حبیب جالب کے بیوی بچوں کیلئے‘‘ بیرا الٰہی بخش لفافہ لے کر آیا تو اس کا چہرہ تمتما رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ جالب کیلئے جو صاحب مجھے لفافہ دے کے گئے ہیں وہ ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ پاک ٹی ہاؤس کے مالک سراج الدین تھے۔ ان کی وفات کے بعد انکے صاحبزادے زاہد نے کنٹرول سنبھال لیا۔ کچھ عرصے بعد زاہد نے ٹی ہاؤس بند کر دیا اور اسے ٹائروں کا کاروبار کرنے والے کسی شخص کو دے دیا۔ مگر حکم امتناعی لے لیا گیا اور مقدمہ چلتا رہا۔ فیصلہ ادیبوں، شاعروں کے حق میں ہوا۔ پاک ٹی ہاؤس کی تزئین و آرائش کے بعد مارچ 2013ء میں میاں محمد نواز شریف نے اس کا افتتاح کیا۔ ٹی ہاؤس میں مستقل بیٹھنے والوں میں بیشتر اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ اب ان شخصیات کی تصویریں آویزاں کر دی گئی ہیں۔