ہمارے حکمران
مکرمی! خاندان میں وہ بہت متمول تھا۔ جب کسی غریب اور رشتے دار کو پیسوں کی ضرورت پڑتی تو وہ اس کی 5 کنال کی کوٹھی پر آتا اپنی حالت زار بتاتا اور کچھ پیسے ادھار مانگتا، وہ بیوی کو آواز دیتا پروین میری قمیض کی جیب سے 2 ہزار روپے لانا۔ اس بیچارے کے گھر میں آٹا نہیں ہے۔ یہ تذلیل مقروض برداشت کرتا۔ لیکن جب کوئی عزیز رشتے دار اسے بتاتا کہ میں نے بھی 5 مرلہ زمین خرید لی ہے۔ تو اس کا منہ سرخ ہو جاتا انکوائریاں شروع کر دیتا کہ تم نے اتنے پیسے کہاں سے لئے؟ یہی حال ہمارے ملک کا ہے ہمارے حکمرانی بیرونی ملکوں سے قرض پر قرض لیتے جا رہے ہیں، وہ ممالک ہماری ہر قسم کی تذلیل کرتے ہوئے خوشی سے قرض دے رہے ہیں۔ لیکن جب بھی ہم اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو ہماری شامت آ جاتی ہے۔ ان سود خوروں کے منہ سرخ ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ہر قسم کی بدامنی اور دہشت گردی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ عوام اورحکمران ان منفی حربوں سے واقف ہونگے۔ لیکن اس کا کوئی توڑ نکالتے نظر نہیں آتے، سوچتا ہوں سود خوری سے ہم کیسے آزاد ہوں۔ (ماجد علی شاہ، 302 اقبال ایونیو جوہر ٹائون لاہور)