جنرل مشرف نے کہا، محمد ضیاء الدین صاحب نے سنا
محترم نصرت جاوید صاحب نے 31 اگست 2016ء کو اپنے کالم ’’مشرف ایم کیو ایم… ریکارڈ درست ہو گیا‘‘ میں جنرل مشرف کے ایم کیو ایم کو غدار کہنے والے بیان کا واقعہ تحریر کیا ہے۔ انہوں نے اپنے پہلے کالم 25 اگست 2016ء میں لکھا تھا کہ جنرل مشرف کی ایم کیو ایم غدار ہے والی بات انہیں محترم محمد ضیاء الدین صاحب کے ذریعے پتہ چلی جو اُن کے خیال میں اُس افطار میں بذاتِ خود موجود تھے لیکن اس ریکارڈ کی درستگی محترم سعود ساحر صاحب نے نصرت جاوید صاحب کو بھیجی گئی ای میل کے ذریعے کرنی چاہی۔ ’’سعود صاحب نے یاد دلایا کہ ضیاء الدین صاحب غالباً ان دنوں لندن میں تھے اور مجھے یہ بھی یاد ہے کہ انہوں نے مجھ سے فون پر بات کی اور اس بات کی تصدیق چاہی کہ کیاواقعی پرویز مشرف نے ایم کیو ایم کو غدار وطن کہا تھا؟ سعود ساحر صاحب نے تصدیق کی کہ پرویز مشرف نے ایسا ہی کہا تھا۔ اسی بنیاد پر ضیاء الدین صاحب نے (روزنامہ) ڈان میں یہ واقعہ لکھا بھی۔ سعود صاحب کا شکریہ کہ ان کے خط لکھنے کی وجہ سے ریکارڈ درست ہو گیا‘‘۔ محترم نصرت جاوید صاحب کا مندرجہ بالا کالم پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں موجود 1999ء کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل مشرف کی ایم کیو ایم کو غدار کہنے والی بات کے حوالوں میں بے چینی پیدا ہو گئی کیونکہ میری یادداشت کے مطابق یہ واقعہ 27 رمضان المبارک 16 جنوری 1999ء کا ہے۔ جنرل مشرف کی طرف سے دیئے گئے اس افطار میں محترم محمد ضیاء الدین صاحب، محترم حامد میر صاحب، محترمہ نسیم زہرہ صاحبہ اور محترم سعود ساحر صاحب سمیت دس سینئر صحافیوں نے شرکت کی۔ یعنی محترم محمد ضیاء الدین صاحب وہاں بذاتِ خود موجود تھے۔ تاہم محترم سعود ساحر صاحب کی یادداشتوں کے بارے میں سوالیہ سوچ لانا بھی گناہ ہے لیکن معاملہ ریکارڈ کی درستگی کا ٹھہرا۔ اسی لئے میرے اندر کے صحافیانہ تجسس نے ضد پکڑی۔ میں نے محترم نصرت جاوید صاحب کا کالم شائع ہونے کے بعد اسی روز یعنی 31 اگست 2016ء کو محترم محمد ضیاء الدین صاحب کو ای میل کی۔ میں نے لکھا کہ ’’میری 1999ء کی یادوں میں یہ بات محفوظ ہے کہ آپ جنرل مشرف کے اُس افطار میں موجود تھے جس میں انہوں نے ایم کیو ایم کو غدار کہا تھا۔ دوسرا یہ کہ کچھ ماہ قبل آپ حامد میر صاحب کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں بھی یہ بات صاف صاف بتا چکے ہیں۔ لہٰذا محترم محمد ضیاء الدین صاحب کی اُس تقریب میں عدم موجودگی والی بات درست نہیں ہے‘‘۔ میں محترم محمد ضیاء الدین صاحب کا بے حد شکرگزار ہوں کہ انہوں نے میری ای میل کا فوری جواب دے کر مجھے عزت بخشی۔ انہوں نے مجھے بھیجی گئی اپنی انگریزی ای میل میں جو لکھا اُس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے۔ ’’میں 2006ء سے 2009ء تک لندن میں تھا۔ مذکورہ واقعہ جنوری 1999ء میں پیش آیا۔ جب مشرف نے الطاف کے بارے میں کہا تو میں وہیں موجود تھا۔ بیشک میں نے 2007ء میں لندن سے سعود ساحر صاحب کو فون کیا۔ اس فون کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ میں اس واقعے کو اپنے کالم (روزنامہ ڈان) میں تحریر کرنے سے پہلے مشرف کے اس بیان کی دوبارہ تصدیق چاہتا تھا کیونکہ وہ سعود ساحر صاحب ہی تھے جنہوں نے (مشرف سے) یہ سوال پوچھا تھا‘‘۔ محترم محمد ضیاء الدین صاحب، محترم سعود ساحر صاحب اور محترم نصرت جاوید صاحب کی مندرجہ بالا کالمی اور ای میلی گفتگو سے سیاست کے طالب علموں کو سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ سیکھنے کی خاص بات یہ ہے کہ غداروں کو اپنے ساتھ ملانے والے کیا کہلائیں گے؟ دوسری یہ کہ صرف سیاست دان ہی غدار نہیں ہوتے۔ البتہ میری ’’جواب آں ریکارڈ درستگی‘‘ سے ٹھیک ٹھیک پتہ چل گیا کہ محترم محمد ضیاء الدین صاحب مشرف کی اُس تقریب میں موجود تھے اور یوں محترم نصرت جاوید صاحب کے 25 اگست 2016ء والے پہلے کالم میں لکھی گئی اُن کی یادداشت درست ثابت ہوئی۔ محترم نصرت جاوید صاحب نے اپنے حالیہ کالم میں یہ بھی لکھا ہے کہ سعود ساحر صاحب دائیں بازو کے بڑے پیامبر تھے اور خود محترم نصرت جاوید صاحب بائیں بازو کے خیمے میں مقیم تھے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ ’’دائیں اور بائیں کے درمیان تفریق اب عرصہ ہوا ختم ہوچکی ہے۔ صحافی بھی صحافی نہیں رہے۔ خبر نہیں بھاشن دیتے ہیں۔ خدا نے جنہیں عقل سے زیادہ خوبصورت شکل عطا کی ہے وہ ٹیلی ویژن سکرینوں کے سٹار بن گئے ہیں‘‘۔ محترم نصرت جاوید صاحب کی یہ بات ہم تسلیم کرتے ہیں کیونکہ سوویت یونین کے زوال اور امریکہ کے اکیلے عروج کے بعد دائیں اور بائیں بازو کی تفریق ختم ہوگئی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ دائیں اور بائیں بازو والے ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں۔ یہ علیحدہ بات کہ دوری کے فاصلے کم کرنے کے لئے دائیں بازو والے اپنی جگہ چھوڑکر نسبتاً لمبا فاصلہ طے کرکے بائیں بازو والوں کے پاس گئے ہیں۔ شاید انہیں بائیں بازو والوں کی کچھ ادائیں زیادہ پسند آگئی ہیں۔ اس کے علاوہ محترم نصرت جاوید صاحب کے مذکورہ کالم پر میرے تجسس کے بعد یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ بائیں بازو والوں کا ریکارڈ پہلے سے ہی درست ہے۔