مسلم امہ کی دولت مشترکہ
قل اللھم ملک ا المک توتی الملک من تشاء و تنذیح الملک من تشاء (آل عمران سورۃ نمبر 3 آیت نمبر 26)
’’عرض کریں اے مالک سب ملکوں کے تو بخش دیتا ہے۔ ملک جسے چاہتا ہے اور چھین لیتا ہے۔ ملک جس سے چاہتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے عطاء کردہ ملک میں اسی کا حکم چلنا چاہئے۔ اللہ کریم نے بہت سے مسلمان ممالک کو غلامی سے نجات بخشی ہے‘ آزاد ہو چکے ہیں۔ اسکے احکام کے اوامرونواہی کے کماحقہ اطلاق کیلئے تمام مسلمانوں کی ایک حکومت قائم ہونا ناگزیر ہے۔ انتظامی سہولت کیلئے مختلف ریاستیں قائم رہ سکتی ہیں‘ لیکن قانون ایک ہو۔ یعنی حاکمیت صرف اللہ کریم کی ذات کیلئے مختص ہے۔ قانون صرف ایک ہے جو کلام پاک میں موجود اور محفوظ سے۔ اسکی تشریح صرف حدیث پاک ہے۔ اسکے بعد بھی اگر کوئی نئی صورت حالات پیدا ہو جاتی ہے تو ’اجتہاد‘‘ کا راستہ موجود ہے۔ اس مکمل ضابطۂ حیات کے بعد کسی اور چیز کی کوئی گنجائش نہیں۔ہم سب کا اللہ ایک‘ رسولؐ ایک‘ قبلہ ایک‘ تاریخ ایک‘ ہیرو ایک‘ اقدار ایک‘ تہوار ایک‘ کیلنڈر ایک‘ جینے مرنے‘ شادی بیاہ کا طریقہ ایک‘ بچے کی پیدائش سے آخری رسومات تک ایک‘ ہمارا فائدہ ایک‘ نقصان ایک‘ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ رنگ‘ نسل‘ قومیت‘ سماجی‘ اقتصادی حیثیت کا کوئی فرق نہیں لہٰذا ہمارے ایک ہونے میں کوئی امر مانع نہیں ہو سکتا۔یہ کوئی نئی بات نہیں‘ ابتدائے آفرینش سے اللہ کریم کے احکام کی پابندی کرنیوالے ایک ہی گروہ میں شامل رہے ہیں۔ اس منزل کی نشاندہی تاریخ کے مختلف ادوار میں صاحب نظر لوگ کرتے چلے آئے ہیں۔ جمال الدین افغانی (1837ء سے 1897ء تک) بھرپور انداز میں پان اسلام ازم کی تحریک کے داعی تھے۔ انکے بعد کے لوگوں میں قابل ذکر مساعی علامہ اقبال (1877ء سے 1936ئ) کی ہیں …؎
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر
بعدازاں چودھری نذیر احمد صاحب نے 1972ء میں اپنے انہی خیالات کو عوام الناس تک پہنچانے کیلئے انگریزی میں ایک کتاب لکھی جس کا نام Thoughts on Pakistan and Pan-Islamism ہے۔ اس میں آپ نے حقائق کا تجزیہ کرکے قابل عمل تجاویز پیش کی ہیں۔اکیسویں صدی کی ابتدا تک افریقہ اور ایشیا کی بہت سی مسلمان ریاستیں آزاد ہو چکی ہیں۔ اب مناسب وقت ہے کہ مسلمانوں کی دولت مشترکہ کا آغاز کیا جائے۔
اولین قدم کے طورپر تمام برادر اسلامی ممالک میں آگاہی مہم چلائی جائے۔ یہ فریضہ حکومتی سطح پر اپنے سفیروں کے ذریعے انجام دیا جا سکتا ہے۔ ایٹمی قوت ہونے کے ناطے پاکستان کو بڑے بھائی کا کردار ادا کرنا چاہئے۔ پاکستان کی آواز برادر اسلامی ممالک تک اثر پذیر ہوسکتی ہے۔ میڈیا کے ذریعے تمام مسلم ممالک کے عوام تک پہنچا جا سکتا ہے۔ حج کے موقع پر سارے یا زیادہ سے زیادہ سربراہان مملکت مکہ شریف میں خادم حرمین شریفین کی قیادت میں اس پر غوروخوض کرکے مشترکہ لائحہ عمل تیار کر سکتے ہیں۔ حج کے موقع کا یہ فائدہ ہوگا کہ صرف احرام زیب تن ہونے کی بنا پر امیر اور غریب شریک ممالک کے سربراہ برابر حیثیت میں شریک ہونگے۔ سب مندوبین حج کی وجہ سے ذاتی خرچ پر جائینگے۔ وہاں میٹنگ میں غلط بیانی سے بچیں گے جو وعدہ اللہ کے گھر میں کرینگے اس پر عمل پیرا ہونگے۔ جیسا کہ رحمت دوعالمؐ کے دور میں سب معاملات مسجد نبوی میں سے سادگی سے انجام پاتے تھے۔ غربت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ چند امیر ممالک کا فرض ہے کہ غریب مسلمان بھائی ملکوں کا خیال رکھیں۔ بادشاہوں اور امراء کی زکوٰۃ غریب ممالک میں اسکے سفیروں کے توسط سے پہنچائی جائے۔ترقی پذیر مسلمان ممالک میں یونیورسٹیاں اور ریسرچ سنٹر قائم ہوں۔ طلباء میں اسلامی ممالک کو ترجیح دی جائے۔ اسکے اخراجات وہ اسلامی ممالک اٹھائیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے من و سلویٰ کی طرح بغیر ذاتی محنت کے تیل کی دولت سے مالامال کر دیا ہے۔
ان اقدامات سے مسلم اُمہ کے مسائل غربت‘ بیکاری‘ جہالت‘ بھوک اور بیماری کے خاتمہ میں پیش رفت ہو سکتی ہے۔ بعدازاں دوسرے مشترکہ مسائل پر بھی بات ہو سکتی ہے۔ امت مسلمہ کے مشترکہ گھمبیر مسائل بھوک‘ بیکاری‘ جہالت اور بیماری ’’اپنی مدد آپ‘‘ کے اصول کے تحت حل کرنے کیلئے بنیادی تجاویز پہلی قسط میں پیش کی جا چکی ہیں۔ اب مملکت خداداد اسلامیہ کا مجوزہ ڈھانچہ ملاحظہ فرمائیں۔
صدر مقام… مدینہ شریف جو رحمت دوعالمؐ نے مقرر فرمایا۔ خلیفتہ اللہ … خادم حرمین شریفین۔ گورنر یا ناظم… ہر ملک کے سربراہ اپنے اپنے ملک میں۔ دفاع… بتدریج اکٹھا ہو جائے۔ دفاعی کونسل… ہر ریاست کے دفاع کا انچارج اس کا ممبر ہو۔ دفاعی کونسل کا سربراہ… ممبران میں سے اہلیت اور استعداد کے لحاظ سے جو سب سے بہتر ہو۔ کرنسی… یورو کی طرح کرنسی بھی ایک ہو جوکہ بتدریج رائج کی جائے۔ تجارت… اپنے ممبر ملکوں کی آپس میں کھلی تجارت کی اجازت ہو۔ درآمد اور برآمد برابر رکھنے کے قوانین وضع کئے جائیں۔ کامرس چیمبرز ممبر… تجار ویزا کے بغیر جب چاہیں کس ملک میں آجا سکیں۔ دوروں کے دوران مال دیکھ کر موقع پر سودے کر سکیں۔ زرمبادلہ کی حد مقرر کر لیں۔ وفود کا تبادلہ… فوجی تجارتی‘ تعلیمی ہر پیشہ اور ہر محکمہ کے وفود کا آپس میں تبادتہ ہو تاکہ ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ ان میں تعلیم‘ میڈیکل‘ پولیس‘ انتظامیہ‘ مقننہ‘ ماہرین قانون‘ سیاستدان‘ صحافی‘ بنکار‘ صنعتکار‘ مواصلات‘ کمپیوٹر‘ سیاحت‘ ریسرچ سکالرز سائنس اور آرٹ یعنی ہر میدان کے لوگوں کو آنا جانا چاہئے۔