قومی اسمبلی: متحدہ دل سے الطاف کی محبت نہ سکال سکی
جمعہ کو قومی اسمبلی کا35واں سیشن شروع ہو گیا ہے یہ سیشن 9ستمبر 2016تک جاری رہے گا اہم بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت قومی اسمبلی کے اجلاس میں متنازعہ مسودہ قانون ’’پاکستان کمیشن آف انکوائری بل2016ئ‘‘ لے آئی ہے حسب توقع اپوزیشن نے اس بل کی شدید مخالفت کی اس بل کا کیا انجام ہو گا فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہے البتہ اپوزیشن سینیٹ میں پیر کو ’’پانامہ پیپرز انکوائری کے بارے میں پرائیویٹ بل لا رہی ہے جس طرح جمعہ کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے حکومتی بل کی مخالفت کی ہے اسی طرح حکومت جو ایوان بالا میں اقلیت میں ہے اپوزیشن کی مخالفت کرے گی۔ جمعہ کو قومی اسمبلی نے 22اگست کو الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر اور نعروں کے خلاف قرارداد مذمت اتفاق رائے سے منظور کرلی اگرچہ ایم کیو ایم کے ارکان نے بھی قرارداد کی حمایت کی لیکن وہ اس بات پر مصر رہے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو صفائی پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔ فاروق ستار نے کہا کہ اگر مجھے بھی قرارداد پڑھنے کا موقع ملتا تو ہمارا موقف بھی سامنے آجاتا 22 اگست ہمارے لئے سب سے برا دن تھا تحریک کے بانی نے لکیر کھینچی تو ہم نے بھی لکیر کھینچ لی۔ ڈیڑھ انچ کی الگ مسجد بنانے کی بجائے ہم نے پوری مسجد کو محفوظ کیا ہے ۔ الطاف حسین سے مکمل قطع تعلق کرلیا ہے پاکستان کے ساتھ ہماری محبت غیر مشروط ہے ایک بیان کی پاداش میں سارے مہاجروں کو دیوار کے ساتھ لگانے کی اجازت نہیں دیں گے پاکستان مردہ باد لگانے والوں کو تو پوری قوم نے مسترد کردیا ہے فاروق ستار جو اب بھی الطاف حسین کے بارے میں اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں اور کہا کہ انکے معافی نامے پر بھی غور کیا جائے جس پر ریاستوں اور سرحدی امور کے وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے فاروق ستار کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ بانیان پاکستان کا تعلق پورے پاکستان سے ہے صرف ایک شہر میں رہنے والے بانیان پاکستان کی اولاد نہیں ہیں۔ 1947ء میں آگ اور خون کے دریا عبور کرکے پاکستان آنے والے لوگوں میں سے 95 فیصد کا تعلق پنجاب سے تھا پانچ فیصد دوسرے صوبوں میں آباد ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ایم کیو ایم کے رہنمائوں کی باڈی لینگوئج سے آج بھی الطاف حسین کی عزت و احترام نظر آتا ہے انہوں نے کہا کہ ’’ 1984 میں الطاف حسین نے کراچی میں مزار قائد کے سامنے پاکستان کا جھنڈا جلایا ‘ بھارت میں جا کر پاکستان اور دو قومی نظریے کے خلاف بات کی اس شخص نے آج تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیا اگر یہ کہا جائے کہ ایم کیو ایم کا کوئی عسکری ونگ نہیں تھا تو یہ عوام کے ساتھ بڑی زیادتی ہوگی‘‘ دلچسپ امر یہ ہے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے ایم کیو ایم کو ریلیف دیا اور اس کی نئی حیثیت کو تسلیم کر لیا ایم کیو ایم پاکستان کو نئی جماعت قرار دیتے ہوئے الطاف حسین کو اس سے مائنس کر دیا ہے اس معاملہ پر پیر کو وزیردفاع خواجہ آصف، نوید قمر محمود خان اچکزئی اور دیگر رہنماء اظہار خیال کریں گے۔ لیفٹیننٹ جنرل(ر) عبد القادر بلوچ نے الطاف حسین کو پاگل قرار دے دیا۔ قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کی بے بسی دیدنی تھی وہ جماعت جو اپنے قائد کے خلاف ایک لفظ سننے کے لئے تیار نہیں ہوتی تھی خاموش بیٹھی رہی ۔فاروق ستار نے الطاف حسین کا دفاع کیا اور کہا کہ ان پر پاکستان کا پرچم بھی نذر آتش کرنے کا الزام درست نہیںایم کیو ایم کے ارکان قومی اسمبلی کی الطاف حسین سے وابستگی اور ہمدردی ایوان میں چھپی نہیں رہی ۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا کہ تمام پارلیمانی لیڈرز اور ارکان اس معاملے پر بات کرنا چاہتے ہیں پیر کو اس ایشو پر کھل کر بات کرنے کا موقع دیا جائے گا جمعہ کو سپیکرسردار ایاز صادق نے وزراتوں کی جانب سے سوالات کے جواب نہ آنے شدید ناراضی کا اظہار کیا اور وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب کی کلاس لے لی اور کہا کہ ساری وزارتوں کو بلایا جائے۔ سوالات کے جواب دینے میں تاخیر کی جارہی ہے۔ انہوں نے ایک وزرات سے متعلق سوال دوسری وزرات کو منتقل کرنے کا سخت نوٹس لیا وفاقی حکومت نے مسلم لیگ (ن) کے ’’قانونی دماغ ‘‘ زاہد حامد نے اپنا تیار کردہ مسودہ قانون ’’پاکستان کمیشن برائے انکوائری بل 2016ء ‘‘قومی اسمبلی میں پیش کیا تو جہاں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بل کی شدید مخالفت کی گئی وہاں پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید نویدقمر نے بل کو ’’وزیراعظم بچائو‘‘ قانون قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کی اولاد نے اعتراف کیا کہ پانامہ آف شور کمپنیاں ان کی ہیں۔ پہلے وزیراعظم نے خود کو احتساب کیلئے پیش کرنے کااعلان کیا مگر اب حکومت مکر گئی ہے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بل پانامہ کے حقائق کو دفن کرنے کیلئے لایا جارہا ہے زاہد حامد نے کہا کہ اپوزیشن صرف پانامہ معاملے پر تحقیقات کرانا چاہتی ہے مگر حکومت کسی بھی ملک میں آف شور کمپنیاں رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہے،اپوزیشن کا ہدف صرف وزیراعظم ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ کے اجلاس میں اس بل پر حکومت اور اپوزیشن میں کمرومائز ہوتا ہے یا بات پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس تک جا پہنچتی ہے۔