اکہترا ور آج۔۔ جنرل مصطفی کا تجزیہ
حالات دگر گوں ہیں، سوچا کسی صاحب فراست سے حل پوچھوں، نگاہ ایک بار پھر جنرل غلام مصطفی پر پڑی، وہ اکہترمیںمشرقی پاکستان میں تھے،تب نوجوان افسر تھے، بعد میں اعلی تریںمناصب پر فوج میں خدمات انجام دیں۔
میرے ذہن میں وسوسے ویسے ہی نہیں، تازہ خبر یہ ہے کہ بھارت نے بلوچستان کے لئے مکتی باہنی طرز کی گوریلا تنظیم کھڑی کر دی ہے، براہم داغ بگتی نے بلوچیوں کے لئے بھارت سے پناہ کی درخواست کر دی ہے آل انڈیا ریڈیو بلوچوں کی شورش کو ہوا دینے کے لئے بلوچی سروس شروع کر چکا ہے۔بھارت کا کوئی عام آدمی نہیں،کوئی وزیر مشیر نہیں ،اس ملک کا وزیرا عظم مودی یہ کہہ چکا ہے کہ وہ بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت کے عوام کے حقوق کے لئے مدد کرے گا۔اس نے ڈیڑھ ماہ سے مقبوضہ کشمیر میں جبر ، ظلم ، قتل وغارت کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے،اس کی افواج نے کنٹڑول لائن پر جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاک فوج کی چوکیوں پر فائرنگ کی ہے۔
اکہتر میں صرف ایک محاذ تھا، مشرقی پاکستان، اب چاروں طرف خون ہی خون ہے، خیبر پختون خوا ایک روز میں خود کش دھماکوں سے لرز اٹھا۔
الطاف حسین کے ذریعے گالیاں نکلوا کر پاکستان کی حکومت اور سیکورٹی افواج کی ساری توجہ کراچی پر مبذول کروا دی گئی ہے جبکہ بھارت کا ٹارگٹ کچھ اور ہے، کراچی کا سیاسی ڈرامہ تفنن طبع کے لئے ہے مگرا سکے لئے پارلیمنٹ میں قراردادیںمنظور کی جا رہی ہیں یہ سب دھوکہ ہے، اصل محاذ سے توجہ ہٹانے کی چالاک کوشش ہے۔وزیراعظم کو افتتاحی فیتے کاٹنے کا شوق چرایا ہوا ہے۔ کوئی بھی مودی کو روکنے ٹوکنے والا نہیں۔
صرف جنرل راحیل شریف نے مودی کو للکارا ہے، باقی سب خاموش ہیں اور جنرل راحیل تین ماہ بعد چلے جائیں گے تو کیا ہو گا۔اس ملک میں چار چیف منسٹر ہیں ، چار ہی گورنر، ایک وزیراعظم اور ایک صدر، ہزاروںکی تعداد میں منتخب ارکان۔آزاد کشمیر اور گلگت کا اپنا حکومتی ڈھانچہ ہے مگر کیاان سب کے ہوتے ہوئے اکیلا راحیل شریف ،مودی سے لڑے گا اور اگلے تین ماہ میں اس لڑائی کو منطقی انجام تک پہنچا پائے گا۔
اپوزیشن کا حال یہ ہے کہ وہ پانامہ لیکس سے بے حال ہو چکی ہے،اسے بھی ملکی سیکورٹی کولاحق خطرات سے کوئی پریشانی نہیں، جمعہ کو عمران ا ور راحیل کی ملاقات ہوئی ، کیا اس ملاقات میں جنرل صاحب نے نہیں کہا کہ کس بکھیڑے میں پڑے ہو، اصل خطرے کی طرف دیکھو۔پہلے ملک تو بچا لو ، پھرنظام سیدھاکروا لینا،مگر یہ کام راحیل کا ہے نہیں کہ وہ لوگوں کو لائن دینے لگ جائیں۔اتنی سمجھ تو عمران ا ور قادری کوہونی چاہئے کہ وہ موقع محل دیکھیں اور پھر دھما چوکڑی مچا لیں۔
تو یہ ہے وہ پس منظر جو مجھے تشویش میں مبتلا کر رہا ہے۔
جنرل مصطفی کے سامنے میںنے یہ ساری صورت حال رکھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ مشرقی پاکستان میں دو مرتبہ رہ چکے ہیں ، پہلے تو ان کے والد بزرگوار وہاں ملازمت کرتے تھے، توا ن کے ساتھ رہے ا ور پھر اکہتر سے چند برس قبل جب ان کی پوسٹنگ جیسور میںہو گئی۔
جنرل صاحب نے کہا کہ جو کچھ آج ہم اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو دے چکے ہیں، شیخ مجیب نے اس سے کہیں بہت کم مانگا تھا۔ آج ہر صوبہ مختار کل ہے، فیڈریشن کا کہیں وجود ہی نہیں، اسی لئے زرداری ہر تین ماہ بعد رینجرز کے اختیارات کا مسئلہ کھڑا کر دیتے ہیں۔
مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے آثار کب دیکھے، میںنے پوچھا،جنرل صاحب نے کہا کہ وہ ستر کے الیکشن میں ڈیوٹی پر تھے، فضا میں ایک خاموشی سی محسوس ہوتی تھی مگر تشویش کی کوئی بات سامنے نہ آئی، فوجی آپریشن ہوا تو کچھ لوگوںنے ضرور کہاکہ پاکستان تو انہوں نے بنایا، ہم کون ہوتے ہیں، ان کو ڈکٹیٹ کرنے والے، مگر علیحدگی کی سوچ پھر بھی محسوس نہ ہوتی تھی۔معاملہ تب بگڑا جب شیخ مجیب کو اگر تلہ سازش کیس میں بند کیا گیا اور پھر چھوڑ دیا گیا تو وہ اپنے عوام کا ہیرو بن گیا، اس کے بعد تو مشرقی پاکستان میں اس کی مرضی کے بغیر پتہ تک نہ ہل سکتا تھا۔
مشرقی پاکستان کے دفاع کے لئے صرف اکتیس ہزار فوج وہاںموجود تھی، یہ بھارتی جارحیت کا سامنا کرنے کے لئے ناکافی تھی اور جی ایچ کیو کایہ نظریہ بھی غلط ثابت ہوا کہ مشرقی سرحد کا دفاع، مغربی سرحد سے کیا جائے گا، کیونکہ مغربی محاذ پر بھی شلجموں سے مٹی جھاڑنے کے سوا کوئی کاروائی نہ کی گئی۔
میں یہ سن کر حیران ہوا کہ مشرقی پاکستان میں فوج کی تعداد صرف اکتیس ہزار تھی، میںنے پوچھا مگر جنگی کیمپوںمیں تو آپ نوے ہزار تھے۔
جنرل صاحب نے وضاحت کی کہ وہ سارے کے سارے فوجی نہیںتھے، فوجی قیدیوں کی تعداد صرف اکتیس ہزار تھی۔باقی سب غیر فوجی تھے۔
آج ہمیں کیا خطرات لاحق ہیں اور ان کا مقابلہ کیسے ممکن ہے، میںنے سوال کیا۔
سارا جھگڑا گوادر کا ہے۔اور اس پر چین کے کنٹرول کا ہے۔بھارت اور امریکہ کے درمیان جو معاہدہ ہوا ہے، اس کا ٹارگٹ بھی گوادر ہے۔باقی سب فروعی باتیں ہیں او راصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کے لئے کئی شوشے چھوڑے جا رہے ہیں۔امریکہ نے بھارت کے اڈے مانگے ہیں تو وہ چین کے خلاف ، باقی بھارت کو امریکی اڈوں کی کیا ضرورت ہے، کیا وہ میکسیکو یا پانامہ یا کینیڈا یا کیوبافتح کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
کیا آپ بلوچستان میں پاکستان کی کمزوریوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں، میںنے پوچھا۔
جنرل صاحب نے کہا کہ یوں تو گھبرانے والی کوئی بات نہیں، بلوچستان کے تیئیس بڑے قبائل میں سے صرف تین قبیلے مسئلہ پیدا کرتے ہیں، یہ ہیںمری، مینگل اور بگتی اور ان کا بھی ایک چھوٹا ساٹولہ بھارت یاکسی دوسری بیرونی قوت کا آلہ کار ہے۔ اگر انہیں صوبے کی کانیں دے دی جائیں تو ان کے سارے گلے شکوے ختم ہو جائیں گے ۔
جنرل صاحب نے یاد دلایا کہ صوبے میں آج تک صرف دو حکومتیں بلوچستان سے باہر کی تھیں ایک جنرل رحیم کی اور دوسری جنرل ایس کے لودھی کی۔ان کے دور میںکوئی مسئلہ نہیں تھا۔ مگر ہمیں اس اتحاد کامظاہرہ کرنا ہو گا جو پینسٹھ کی جنگ میں دیکھنے میں آیا۔یہ جو حکومت ا ور اپوزیشن کے مابین ایک سرد جنگ چل رہی ہے، اس میں سے نکل کرہی ہم بڑے خطرے سے نبٹ سکتے ہیں۔اور اٹھارویں ترمیم ختم نہیںکر سکتے تو ہمیں وفاق کو مضبوط بنانے کے لئے دوسرے ضروری اقدامات کرنا ہوں گے۔ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ بھارت میں کنکرنٹ لسٹ پھیل رہی ہے اور ہم اسے محدود کر چکے ہیں۔
کیا مشرقی پاکستان کا عام آدمی واقعی پاکستان سے نفرت کرتا تھا۔ میںنے آخری سوال کیا۔
جنرل صاحب کے جواب نے مجھے رلا دیا، کہنے لگے کہ جب ہم ہتھیار ڈال چکے تو جیسور کے لوگ ٹولیوں کی شکل میں آئے، وہ کہہ رہے تھے کہ ہمیںکس کے رحم وکرم پر چھوڑ کر جا رہے ہو۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ سارا فساد ایک سازشی ٹولے نے کھڑا کیا تھا،بلوچستان میں بھی قصہ یہی ہے۔
جنرل صاحب نے کہا کہ ہمیں ایک قوم بننا ہے، بھارت میں اکھنڈ بھارت کا نعرہ لگتا ہے، ہم مضبوط فیڈریشن کی بات نہیں کرتے،اس کے لئے ہمیں چارٹر آف پاکستان تشکیل دینا چاہئے۔
یہ ایک نئی اور اہم کہانی ہے اور اس پر بات جاری رہے گی۔