اپنے ملک کے ”مودیوں“ سے خطرہ اور حلقہ ارباب ذوق
بلاول بھٹو زرداری نے ”مودی کے یار“ کا نعرہ لگایا تھا۔ اعجازالحق نے پاکستان میں موجود مودیوں کی طرف نامعلوم اشارہ کیا ہے۔ انہیں چاہئے کہ دلیری سے کھل کر اشارہ کریں۔ وہ کون لوگ ہیں جو اپنے ہی ملک میں دشمن کا کردار ادا کر رہے ہیں بھارتی وزیراعظم کا نام نریندر ہے مودی اس کی ذات ہے۔ اب یہ ”ذات“ پاکستان دشمنی کی علامت بن چکی ہے بھارت کا ہر وزیراعظم ہی مودی جیسا تھا مگر مودی سب سے آگے نکل گیا ہے۔ نواز شریف کا دوست بھی ہے؟ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت نہرو سے آگے اب تک کوئی نہیں نکل سکا۔ اس نے مقبوضہ کشمیر بچانے کے لئے اقوام متحدہ کا سہارا لیا۔ مگر اب تک اقوام متحدہ کی قراردادیں حریت پسند بہادر کشمیریوں کے خون کی پھوار میں بھیگ رہی ہیں۔ ظلم کبھی کسی آزادی کی تحریک کو نہیں روک سکا۔ دنیا کی تاریخ میں کبھی بھی آزادی کی تحریک ناکام نہیں ہوئی۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے کا تو جم جائے گا
برادرم اعجازالحق نے خوب بات کی ہے۔ اسے مزید زوردار بنانے کے لئے ان لوگوں کے نام بتانا چاہئیں جو پاکستان کے اندر مودی جیسی پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ یہ سرگرمیاں اب شرگرمیاں بن چکی ہیں۔
سی پیک کا منصوبہ مودی کے یاروں اور ہر قسم کے مودیوں کے لئے پریشانی کا باعث ہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی نے چینی صدر شی جن پنگ سے 35منٹ کی ملاقات میں پاکستان کے خلاف شکایات کے انبار لگا دئیے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے لئے سیاسی طور پر اپنا موقف بیان کیا جس سے عسکری خدشات کی بدبو آ رہی تھی۔ سی پیک منصوبے سے مودی کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں۔
شکر ہے کہ چینی قیادت بھارتی سازشوں کو جانتی ہے۔ امریکہ بھی جانتا ہے مگر امریکی مفادات بہت پیچیدہ ہیں پاکستان ہمیشہ امریکہ کے ساتھ رہا ہے۔ جب بھارت روس کی جھولی میں اس طرح لیٹا ہوا تھا جیسا اب امریکہ کی جھولی میں گرا ہوا ہے۔ خطے میں ہر طرح کا توازن قائم کرنے کے لئے امریکہ کو اپنی خارجہ پالیسی مرتب کرنا چاہئے۔ ہر کڑے وقت اور برے وقت میں پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا ہے۔ امریکہ یاد رکھے جب بھارت نے اپنے مفادات کے لئے کچھ کرنا ہوا تو وہ کبھی امریکہ کے چوائس کے مطابق اپنی پالیسی نہیں بدلے گا۔
شکر ہے کہ چین اپنے معاملات میں ثابت قدم ہے۔
چین پاکستان کے لئے مخلص ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ خطے کے استحکام اور چین کے مفادات کے لئے پاکستان کتنا ضروری ہے۔ پاکستان اپنی اہمیت اور ضرورت کو عالمی سطح پر نگاہ میں رکھے تو انشاءاللہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو نیچا نہیں دکھا سکتی۔ مودی بھی اس حقیقت بلکہ اس تلخ حقیقت کو جانتا ہے۔ وہ کبھی کوئی ایسی حرکت نہیں کرے گا جو پاکستان کے لئے چیلنج ہو۔ پاکستانی چیلنج میں اپنی صلاحیتوں کو آزماتے ہیں اور سرخرو ہوتے ہیں بات سرشاری کی بھی ہے۔ میرا دل کرتا ہے کہ برادرم اعجازالحق کو علامہ اقبال کا یہ مصرعہ سناﺅں۔ یہ شعر وہ خود اقبال کے کلام میں تلاش کرےں اور پھر اس کے معانی پر غور کرےں۔ اکرم چودھری سے مشورہ کر لےں۔
اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ نواز شریف اقوام متحدہ میں جا رہے ہیں تو انہیں حزب اختلاف سے رابطہ کرنا چاہئے۔ پارلیمنٹ میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں سے بات چیت کرےں خاص طور پر عمران خان اور خورشید شاہ سے رابطہ اشد ضروری ہے۔ نواز شریف شوکت خانم میں عمران کے پاس چلے گئے تھے۔ پھر اسلام آباد میں عمران خان سے ملاقات کی تو اب بھی یہ ملاقات ہو سکتی ہے۔ اس کا اچھا تاثر پاکستان کے عوام تک جائے گا اور عالمی سطح پر بھی نواز شریف کے لئے ایک طاقت کا باعث ہو گا نواز شریف جانتے ہیں کہ بھٹو صاحب بھارت گئے تو حزب اختلاف کے سب لوگوں سے صلاح مشورہ کیا تھا۔ وہ پارلیمنٹ کے باہر بھی اپنے مخالف لوگوں سے ملے تھے۔ پھر وہ ایک نئی طاقت امنگ اور قومی ولولے کے ساتھ گئے اندرا گاندھی سے ملے تھے اور اس مقصد میں کامیاب ہوئے جو اپنے دل میں رکھتے تھے۔ بھٹو صاحب نے اپنی تقریروں میں اندرا گاندھی کو ”او مائی“ کہہ کر پکارا تھا پھر وہ پنجابی والی مائی نہ رہی بلکہ انگریزی والی (My) بن گئی تھی۔
اعجازالحق کی یہ بات بھی تقریباً درست ہے کہ اب ریلیوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ تو کیا انہیں کسی (ریلے) کا انتظار ہے۔ قومی یکجہتی اور باہمی افہام و تفہیم سے کوئی بات بنے گی۔ ہم نے اپنی سیاست اور حکومت میں یہی تماشے ہوتے دیکھے ہیں۔ تحریک پاکستان کے بعد تحریک نظام مصطفی ایک بڑی تحریک تھی مگر نتیجہ تو کسی اور کارروائی کے بعد سامنے آیا تھا اور وہ کارروائی اعجازالحق کے والد ضیاءالحق نے کی تھی۔
میں اپنے کولیگ برادرم فہیم فارانی کے ولیمے کے بعد ادیبوں کے ٹھکانے حلقہ ارباب ذوق کے ہفتہ وار اجلاس کے لئے پاک ٹی ہاﺅس پہنچا۔ فہیم فارانی کے ولیمے میں دیر ہو گئی تھی۔ یہاں برادرم الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمن شامی، ارشاد عارف، رﺅف طاہر، بیرسٹر عامر حسن، رافعہ بی بی سے ملاقات ہوئی۔
حلقہ ارباب ذوق کا اجلاس ختم ہو گیا تھا مگر برادرم امجد طفیل اور کئی دوست ابھی موجود تھے۔ آج کا اجلاس بہت اہم تھا۔ حلقے کا 77واں یوم تاسیس تھا۔ اس تنظیم کو 77 سال ہو گئے ہیں۔ ہر اتوار کو باقاعدگی سے اجلاس ہوتے ہیں۔ اخوت والے ڈاکٹر امجد ثاقب مہمان خصوصی تھے۔ یہاں سب حاضرین مہمان خصوصی ہوتے ہیں۔ مگر امجد ثاقب نے کمال کر دیا کہ اخوت کے زیراہتمام ضرورت مند ادیب کو ایک لاکھ قرضہ دیا جائے گا اور سود نہیں لیا جائے گا۔ ڈاکٹر صاحب بڑے جذبے والے آدمی ہیں۔ انہوں نے سول سروس میں اہم پوزیشن کے باوجود استعفیٰ دے دیا تھا۔ سول سروس سے استعفیٰ بہت حیرت انگیز ہے۔ مگر اب جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ بھی حیرت انگیز ہے۔ سول سروس کے کئی لوگوں نے بھی ان سے قرضہ لیا ہوا ہے۔ یہ غریبوں کے لئے بیش بہا تحفہ ہے۔ آپ پوچھیں گے کہ سول سروس کے افسران بھی غریب ہوتے ہیں۔ ویسے غریب اور ادیب ہم قافیہ ہیں۔ تقریباً ہم معنی بھی ہیں۔
ڈاکٹر امجد طفیل نے حلقے کو بہت دوستانہ اور جانفشانہ انداز میں چلایا ہے۔ میں بھی حلقے کا سیکرٹری رہا ہوں۔ میں بلامقابلہ منتخب ہوا تھا۔ یہ میرے لئے بہت بڑا اعزاز ہے۔ آج رات گئے تک میری محبت میں ڈاکٹر امجد طفیل علی، نواز شاہ شفیق احمد خان، علی اصغر عباس، ڈاکٹر افتخار بخاری، رشید مصباح ڈاکٹر عمران دانش، آفتاب جاوید، جاوید آفتاب، جاوید قاسم اور دوسرے نوجوان دوست میرے ساتھ کچھ دیر تک بیٹھے رہے اور مجھے پرانا زمانہ نئے زمانے کی طرح یاد آتا رہا۔