• news

سینٹ : کوئٹہ پشاور مردان دھماکوں کیخلاف متفقہ قرارداد : نیشنل ایکشن پلان کیلئے نگران پارلیمانی کمیٹی بنانے کا مطالبہ


اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ آئی این پی+ این این آئی) ایوان بالا (سینٹ) میں کوئٹہ، پشاور اور مردان دھماکوں کے خلاف مذمتی قرار داد متفقہ طور پر منظورکر لی گئی ۔ارکان سینٹ نے حکومت سے کوئٹہ اور مردان واقعہ کی تحقیقات کا مطالبہ کر تے ہوئے کہا سانحہ کوئٹہ وفاقی و صوبائی حکومتوں ، حساس اور سیکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے،کوئٹہ اور مردان میں دہشت گردی کے واقعات کی انکوائری کر کے سیکیورٹی میں خامیوں کے ذمہ داروں کیخلاف سخت سے سخت کارروئی کی جائے، سانحہ کوئٹہ بلوچستا ن کیلئے نائن الیون سے بڑا سانحہ ہے۔ مسلمان قتل ہورہے ہیں اور مسلمان ہی قتل کر رہے ہیں،دہشتگردی کے درخت کو ہم نے خود پروان چڑھایا،ریاستی اداروں میں ایسے عناصر موجود ہیں جو مذہبی انتہاپسندی اور دہشتگردی کی حمایت کر رہے ہیں ،ہمیں ان عناصر کو اپنے اداروں سے نکالنا ہوگا، را پر لعنت ہے ، را کا ایجنٹ پکڑا جا تا ہے اور حملے بھی ہمارے اوپر ہوتے ہیں۔اجلاس میں حاصل بزنجو،مشاہد حسین ،سراج الحق ،سحر کامران ،عثمان کاکڑ،اعظم خان سواتی ، شاہی سید ،طلحہ محمود و دیگر نے تحریک التواءاور دھماکوں کے خلاف منظور کی گئی قرار داد پر بحث کے دوران اظہار خیال کیا۔صباح نیوز کے مطابق سینٹ میں ملک میں دہشت گردی کے مستقل سدباب کیلئے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کیلئے نگران پارلیمانی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کردیا گیا۔ قومی حکمت عملی کی تیاری کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرنے او ر کوئٹہ میں سکیورٹی ذمہ داران کو سانحہ کے حولے سے جواب دہ بنانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے نیشنل ایکشن پلان کا سربراہ کون ہے۔ ہر حساس مسئلہ پر قوم کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کرنی چاہئے۔قبل ازیں سینیٹر راجہ ظفرالحق نے سانحہ کوئٹہ، پشاور اور مردان کے لیے مذمتی قرار داد پیش کی ۔قرارداد میں ایوان نے کوئٹہ اور مردان میں دہشتگرد حملوں کی مذمت کی اور دھماکوں سے جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا۔ قرارداد میں کہا گیا دہشتگردوں نے معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا۔ سینٹ کو ملک میں دہشتگردی کے واقعات پر تشویش ہے۔ سینٹ دہشتگردی کے خلاف قوم اور سکیورٹی اداروں کے ساتھ ہے اور دہشتگردوں کے مذموم مقاصد کو ناکام بنایا جائے گا۔ قرارداد میں اس بات پر اتفاق ہوا مرکزی اور صوبائی حکومتیں دہشتگردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں تاکہ دہشتگردی کے واقعات میں مزید کمی ہو۔ سینیٹر جہانزیب جمالدینی کے بیٹے کی شہادت پر بھی تعزیت کی گئی ۔ حاصل بزنجو نے کہا سانحہ کوئٹہ بلوچستا ن کیلئے اتنا ہی بڑا تھا جتنا نائن الیون۔” را“ کے ملوث ہونے کا شور مچایا جاتا رہا، ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں یہ دھماکہ کس نے کیا غرض صر ف اس سے ہے ہمارے لوگ شہید ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کی سوچ کر ختم کرنے کی ضرورت ہے، بندو ق سے ہم دہشت گرد ختم کرسکتے ہیں مگر دہشت گردی کی سوچ کو ختم نہیں کر سکتے۔ ہمارے مدارس میں کیا پڑھایا جا رہا ہے‘ ہمیں دیکھنا ہوگا۔سینیٹر مشاہد حسین نے کہا ہمیں سوچنا ہوگا مذاکرات کے باوجود ایسے واقعات کیوں ہورہے ہیں،سانحہ کوئٹہ میں سکیورٹی خامیوںکی مکمل تحقیقات کی جائیں۔سینیٹرسحر کامران نے کہانیشنل ایکشن پلان کو بنے عرصہ گزرگیا مگر ہم آج تک نعشیں گن رہے ہیں‘ دہشتگردوں کیساتھ کیساتھ دہشتگردی کو ختم کرنا ہے۔ بھارتی وزیراعظم کی تقریر اس بات کی دلیل دیتی ہے بھارت بلوچستان میں دہشتگردی میں ملوث ہے،حکومت بتائے جو شواہد امریکہ کو دیئے تھے اور بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کا حکومت کب تک ایسے معاملات پر پردہ ڈالے گی ۔نیشنل ایکشن پلان صرف کراچی میں ہی ہونا ہے پنجاب یا بلوچستان میں نہیں۔سینیٹر طلحہ محمود نے کہا حکومت کے پاس معلومات تھی کوئٹہ میں کوئی دہشتگردی ہوسکتی ہے تو حکومت نے کیا اقدامات کیے ۔ سینیٹر کرنل(ر) طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ وفاقی و صوبائی حکومت سانحہ کوئٹہ کی ذمہ دار ہے،صوبائی اور وفاقی حکومت کوئٹہ اور بلوچستان کو سیکیورٹی دینے میں ناکام ہوگئی ہے،سانحہ کوئٹہ ہماری سیکیورٹی ایجنسیز اور سکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے مگر حکومت اور تمام سکیورٹی ادارے اپنی ناکامی کو ماننے کو تیار نہیں۔حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں سانحہ کوئٹہ کی تحقیقات کرائی جائے۔سینیٹر اعظم خان سواتی نے کہا مردان اور سانحہ کوئٹہ ہماری سیکیورٹی فورسز کی ناکامی ہے۔سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ ہم پنجاب کی عوام کیخلاف نہیں مگر پنجاب کے مقتدر طبقے کے خلاف تھے ہیں اور رہیں گے،پنجاب کے مقتدر طبقات خود کو بچانے کیلئے عوام کو آگے کردیتے ہیں۔ سراج الحق نے کہا حکومت عوام کو سکیورٹی دینے میں ناکام ہو چکی ہے۔حکومت کی ترجیحات کچھ اور ہیں عوام کو تحفظ دینا حکومت کی ترجیح نہیں لگتی ،یہ حالات رہے تو سیکورٹی بجٹ ترقیاتی اخراجات سے بڑھ جائیں گے۔ اعتزاز احسن نے کہا اہم بحث ہورہی اور سنجیدہ معاملہ ہے، لیکن وزیر داخلہ ایوان میں نہیں آتے اور وزیر مملکت برائے داخلہ آتے ہی واپس چلے گئے ، کوئی وزیر بھی ایوان میںنہیں بیٹھا حکومت کو سنانا چاہتے ہیں اور تجاویز دینا چاہتے ہیں لیکن حکومت موجود نہیں۔ احتجاجا ً واک آﺅٹ ہیں ۔ اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی ، جمیعت علماءاسلام ، ایم کیو ایم ، پی ٹی آئی ، فاٹا ، بلوچستان نیشنل پارٹی ، پختونخواہ ملی پارٹی نے واک آﺅٹ کردیا ، اس موقع پر سنیٹر کلثوم پروین نے کورم کی نشاندہی کی ، چیئرمین نے گھنٹیاں بجانے کا حکم دیا لیکن کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے اجلاس کومعطل کردیا۔ آئی این پی کے مطابق اعتزازاحسن نے کہا چند وزراءایوان میں ایسے آتے ہیں جیسے سردیوںکی شاپنگ کرنے آئے ہوں۔ پانچ منٹ بیٹھ کر تو چل میں آیا کہتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔ پارلیمان کا تقدس ماننے والے ہیں۔ ہاتھوں میںاینٹیں نہیں تھامیں جو وزراءپر برسائیں۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا ہاﺅس کو اس وقت تک نہیں چلنے دیں گے جب تک کم سے کم پانچ متعلقہ وزراءایوان میں موجود نہیں ہونگے۔
سینٹ/ قرارداد

ای پیپر-دی نیشن