کیا الطاف حسین کا باب بند ہو گیا
شہزاد چغتائی
کراچی کے علاقوں میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی حمایت میں لگائے جانے والے بینرزکے بعدنئی صورتحال پیدا ہو گئی اور یہ بحث شروع ہوگئی کہ یہ بینرز کس نے لگوائے ہیں اوراس سے کس کو فائدہ ہوا۔ تجزیہ نگار کہتے ہیں ایم کیو ایم میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ دن دیہاڑے یہ بینرز لگانے کی مہم جوئی کرسکے پولیس لاکھ کوششوں کے باوجود یہ سراغ نہیں لگا سکی کہ بینرز لگانے والے کون تھے کیمرے بھی جواب دے گئے اورجن کو شک کی بنیاد پر پکڑا گیا ان کو چھوڑنا پڑا۔بینرز مبینہ طورپر الطاف حسین کی جانشینوں کی جانب سے لگائے گئے جن کے نیچے جانشین الطاف حسین لکھا گیا جس کے ساتھ یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا الطاف حسین کا باب بند ہوگیا ہے اور ان کے جانشین منظر عام پر آگئے اور اگر جانشین سرگرم ہوگئے تو وہ کون ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ الطاف حسین نے آج تک متبادل قیادت تیار نہیں کی بہت پہلے انہوں نے فاروق ستار اورندیم نصرت کو جانشین قرار دیا تھا،لیکن باضابطہ کوئی اعلان نہیں کیا تھا۔ ریڈ زون میں لگائے گئے بینرز کئی پیغام لئے ہوئے ہیں۔ سب سے پہلا تو یہ ہے کہ ریڈ زون کوئی محفوظ علاقہ نہیں ہے دوسرا اشارہ یہ ہے کہ بینر لگانے والوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ الطاف حسین کی سیاست ختم ہو گئی۔ اب ان بینرز سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ یہ نعرے لگانے والے کون ہیں۔قائد کا جو یار ہے وہ موت کا حقدار ہے کے نعرے 25سال پہلے اس وقت لگے تھے جب آفاق احمد اور عامر خان نے الطاف حسین سے بغاوت کی تھی اس نعرے کی بازگشت درمیان میں بھی سنائی دیتی رہی۔ 23 اگست کو متحدہ قومی موومنٹ کے قیام کے بعد کراچی میں جہاں اب تک ایم کیو ایم 200 دفاتر مسمار کئے جا چکے ہیں۔ وہاں الطاف حسین کی تصاویر بھی اتار دی گئی ہیں ۔اب الطاف حسین کی تصاویر اتارنے والوں کا پتہ چلا اور نہ بینر لگانے والے پکڑے گئے۔ اس سے قبل ڈاکٹر فاروق ستار کی رہائش کے اطراف میں بدلہ گروپ نے وال چاکنگ کردی تھی جو مٹا دی گئی۔اب جو بینرلگائے گئے ہیں ان پر فاروق ستار گروپ نامنظور درج ہے جس کا بظاہرمطلب ہے فاروق ستار گروپ کراچی میں کسی اور کیلئے بھی ناپسندیدہ ہےں۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ایم کیو ایم کی اسٹریٹ پاور ختم ہو گئی ہے ۔ہر بار ایم کیو ایم کی پٹائی ہوئی اور پھر اس کی پشت پر ہاتھ رکھ دیا گیا۔ اس بار صورتحال مختلف ہے ہرجانب گرد و غبار‘ مسمار دفاتر‘ گری ہوئی دیواریں‘ ٹوٹے ہوئے دروازے‘ حوالات سے اٹھتی ہوئی سسکیاں‘ آہیں‘ آنسو‘ چھاپے اور گرفتاریاں ہیں۔ سندھ کی سیاسی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل پرانا ہے۔ ایم کیو ایم کے خاتمہ کیلئے 92ءسے پلان اے اور بی بن رہے ہیں ہر آپریشنل پلان کے بعد ایم کیو ایم مزید طاقتورہوگئی اور اس کا مینڈیٹ کم ہونے کے بجائے بڑھ گیا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ایم کیوا یم سہاگن تھی اور پیا اس سے خوش تھے لیکن جنرل کیانی کے بعد ایم کیوا یم یتیم ہوگئی۔ سابق صدر پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد ایم کیو ایم زیادہ متاثر نہیں ہوئی تھی۔ ان دنوں آئے دن نائن زیرو پر جشن کاسماں ہوتا تھا۔ کبھی آصف علی زرداری کی آمد پر اور کبھی پیپلز پارٹی کے ساتھ اشتراک عمل اورحکومت بنانے پر خوشیاں منائی جاتی تھیں۔ایم کیو ایم 10سال حکومت میں رہی لیکن اس نے عوام کو کچھ نہیں دیا۔ ایم کیو ایم کے بعض رہنماﺅں نے اربوں کمائے۔ چائنا کٹنگ بھی کی پھر دو دو گھنٹے کی حراست میں قائد سے غداری پر بھی تیار ہوگئے کیونکہ ان کو اسٹیبلشمنٹ کے سایہ میں رہنے کی عادت ہوگئی ہے۔اب جب حالات بدلے ہیں تو ایم کیو ایم کا مینڈیٹ پھرداﺅ پر ہے۔ سیاسی حلقے کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اب متحدہ پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار سے خوفزدہ ہیں اور ان کا خیال ہے کہ فاروق ستار بھی گورنر سندھ عشرت العباد کی طرح ہاتھ سے نکل سکتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے عہدیداران تقسیم ہوئے ایم کیو ایم تقسیم نہیں ہوسکی۔ صرف الطاف حسین منظر سے ہٹ گئے ہیں۔ اس صورت حال میں فاروق ستار کے پاس خود کو لندن سے الگ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں اب دیکھنا ہے فاروق ستار کا اگلا قدم کیا ہوگا۔مصطفی کمال کہتے ہیں کہ فاروق ستار کے دل سے الطاف حسین کا درد نہیں جارہا ۔رجائیت پسند تجزیہ نگار کہتے ہیں ایم کیو ایم جئے متحدہ اورجئے الطاف میں بٹ گئی ہے لیکن زمینی حقائق بہت تلخ ہیں ۔ اب ایم کیو ایم میں آئین کی ترمیم پر لندن اورکراچی کے درمیان تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے ایم کیو ایم لندن نے ترامیم اور مائنس الطاف فارمولا ماننے سے انکارکردیا اور اختلافات میں شدت دکھائی دے رہی ہے۔فاروق ستار نے الطاف سے ناطہ توڑ لیا ہے لندن سے برقرار ہے وہ الطاف حسین سے لاتعلق ہوگئے ہیں۔ ایم کیو ایم لندن کے کنوینئر ندیم نصرت سے تعلق برقرار ہے۔جس روز متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے ایم کیو ایم کے قائد سے راہیں جدا کیں اور ایم کیو ایم کے جھنڈے سے الطاف حسین کا نام ہٹانے اورقومی اسمبلی میں مذمت کی قرارداد لانے کا فیصلہ کیا۔جبکہ لندن کے رہنماﺅں نے مائنس الطاف حسین فارمولے کو مسترد کردیا واسع جلیل نے کہا کہ الطاف حسین کے خلاف قومی اسمبلی میں قرارداد برداشت نہیں کرسکتے ایم کیو ایم اور اس کا بانی ایک ہے۔
اس وقت جب متحدہ کے سربراہ فاروق ستار ہیں اس دوران یہ بحث شروع ہوگئی ہے کراچی کون چلائے گا۔ اب تک یہ فیصلہ نہیں ہوا۔ میئر کراچی کے حلف اٹھانے کے ساتھ یہ صدائیں بلند ہوئی تھیں کہ شہرنگاروں کو وارث مل گیا۔ لیکن وسیم اختر جیل سے کراچی چلائیں گے یا سوک سینٹر میں فرائض انجام دیں گے؟ میئروسیم اختر کی رہائی میں تسلسل کے ساتھ رکاوٹیں حائل ہونے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ ان کی رہائی تک کراچی ڈپٹی میئروہرہ چلائیں گے میئر کی رہائش کیلئے صوبائی حکومت نے معذرت خواہانہ رویہ اپنالیا ہے۔ ابتدائی دنوں میں پیپلز پارٹی بہت پرجوش تھی اور وزیراعلیٰ مراد علی شاہ میئرکراچی پر نوازشوں کی بارش کیلئے بے چین تھے لیکن جلد ہی ان کو نئی پالیسی مل گئی جس کے مطابق فیصلہ بدل دیا گیا ہے۔ طاقتور حلقے کراچی کے شہریوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اگر آپ ایسے لوگوں کو ووٹ ڈالیں گے تو ہم آپ کے میئر ڈپٹی میئر کو کراچی چلانے کی اجازت نہیں دیں گے۔وسیم اختر جیل جانے والے پہلے میئر نہیں ہیں۔ اس سے قبل جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی جیل کی ہوا کھاچکے ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ سندھ سید غوث علی شاہ نے عبدالستار افغانی کو جلوس نکالنے کی پاداش میں گرفتار کرلیا تھا اور کے ایم سی کونسل کو توڑ دیا تھا۔میئروسیم اختر کی یہ پہلی جیل یاترا نہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں وہ 94ءسے 97ءتک جیل میں رہے۔ ان پر قتل کے 25 سے 300 دوسرے مقدمات تھے۔ ضیاءالحق دور میں پیپلز پارٹی کے رہنماﺅں کو جیل میں کو اے کلاس دی گئی تھی لیکن دنیا کے چھٹے بڑے شہر کے میئر کو بی کلاس دی گئی ہے۔ ادھر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت اپیکس کمیٹی کے پہلے اجلاس میں اہم فیصلے ہو گئے۔ لیکن ڈائریکٹر جنرل رینجرز میجر جنرل بلال اکبر کی درخواست پر کوٹہ سسٹم کے خاتمہ کا فیصلہ نہیں ہو سکا اور وزیراعلیٰ سندھ نے یہ تجویز مسترد کر دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وفاق میں کوٹہ سسٹم نافذ ہے جس کے تحت وفاق میں کراچی کو صرف 2 فیصد ملازمتیں ملتی ہیں سندھ میں کوٹہ سسٹم سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 10 سال کیلئے نافذ کیا تھا جوکہ 43 سال سے نافذ ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے وزیراعظم نواز شریف کو تجویز دی تھی کہ تمام ملازمتوں اور ٹھیکوں کیلئے اوپن میرٹ کردیں اور ان کو نیٹ پر ڈال دیں جو امیدوار میرٹ پر ہوں ان کو نوکری دیدیں اور جو کمپنی سب سے کم بولی دے اس کو ٹھیکہ دیدیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ کوٹہ سسٹم صوبہ اوروفاق میں بدستور قائم ہے۔