• news
  • image

ترقی کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے

صابر بخاری
bukhariaims@gmail.com
ضلع مظفر گڑھ پنجاب کا پسماندہ ضلع ہے۔ یہ ضلع ہمیشہ سے سرداروں‘ جاگیرداروں کے شکنجے میں رہا ہے اور ملکی قوانین سے زیادہ یہاں کے وڈیروں کے قانون نافذ عمل رہے ہیں۔ تمام سرکاری مشنری طاقتور طبقہ کی منشاءسے تعینات ہوتی رہی ہے۔ ن لیگ، پیپلزپارٹی، ق لیگ ہو یا پی ٹی آئی سب کے کرتا دھرتا یہاں کے سردار جاگیردار ہیں جو ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں چھلانگیں لگاتے رہتے ہیں ۔یہ لوگ اپنی دہشت ، وحشت اور تھانہ کلچر کی بدولت عام لوگوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بناکر ووٹ حاصل کرتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ مظفر گڑھ چونکہ راقم کا آبائی ضلع ہے اس لیے بچپن سے ہی یہاں کے لوگوں کی زندگی پر ترس آتا تھا کہ وہ کس طرح بنیادی سہولتوں سے محروم اور مقامی سرداروں جاگیرداروں کے نرغے میں ہیں۔ اس ضلع سے سابق گورنر مصطفی کھر، سابق وزیرخارجہ حنا ربانی کھر، ایم این اے جمشید دستی، سابق وزیر عبداللہ شاہ ،صوبائی وزیر ہارون سلطان بخاری، ایم این اے عاشق گوپانگ، نواب زادہ افتخار احمد خان، نوابزادہ منصور خان، سلطان ہنجرا، مہر ارشاد سیال، سابق وفاقی وزیر قیوم جتوئی، ملک قسور لنگڑیال، ملک شاکر ڈوگر یہاں کے بڑے اور روایتی سیاستدان ہیں سوائے جمشید دستی کے جو عام طبقہ سے سامنے آئے ہیں۔ ہسپتالوں کی حالت زار قابل ترس ہے۔ راقم کے والد صاحب کچھ عرصہ قبل ضلع مظفر گڑھ کے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں داخل ہوئے تو پتہ چلا کہ پورے ضلع میں معدہ اور گردہ کا سپیشلسٹ ڈاکٹر بھی موجود نہیں، باقی ضلع کے چھوٹے موٹے ہسپتالوں کا اندازہ آپ خود لگالیں۔ تقریباً ہر سال اس ضلع کا بڑا حصہ سیلاب کی نذر ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو مستقل بنیادوں پر مسائل کا سامنا ہے۔ لوگوں کو تعلیمی سہولت میسر نہیں خاص طور پر خواتین دور دراز علاقوں میں سفر نہیں کرسکتیں اور تعلیم کو خیر باد کہہ دیتی ہیں۔بے روزگاری انتہا کو چھو رہی ہے کراچی سمیت پورے ملک اور عرب امارات میں سخت محنت مشقت سے روزی کمانے والوں کی بڑی تعداد بھی اس ضلع کی ہے۔ غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کو زیو ر تعلیم سے آراستہ نہیں کرپاتے ان کا موقف ہے کہ ملازمت تو ملتی نہیں پھر بچوں کو کیوں پڑھائیں۔ یہاں ماسٹر، ایم فل لیول کے لوگ ٹیوشنز پڑھا کر یا چھوٹی موٹی ملازمت کرکے گزارہ کررہے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا انتہائی برا حال ہے۔ کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔یہ ضلع بجلی پیدا کرنے کا حب ہے مگر یہاں پیدا ہونے والی بجلی اس ضلع میں استعمال نہیں ہورہی۔ یہاں کی بیوروکریسی صرف یہاں کے مقامی سرداروں، سیاستدانوں کی فرمانبرداری کیلئے موجود ہے۔ مجال ہے کہ کہیں بھی ضلعی بیوروکریسی نظر بھی آئے۔ پورے ضلع میں تجاوزات کی بھرمار ہے۔ ٹرانسپورٹ مافیا نے سفر کو اجیرن بنا دیا ہے۔ تھانہ کی سطح پر کوئی انصاف نہیں ہے۔ شہروں، قصبوں میں صفائی کی ابتر صورتحال ہے مگر ڈی سی او مظفرگڑھ سمیت تمام محکمے انتہائی نااہل ہیں۔ یہاں کے مقامی سرداروں کی بھی کوشش رہی ہے کہ لوگوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہ ہونے دیا جائے اور بنیادی سہولتوں سے دور رکھا جائے تاکہ وہ ان کے مدمقابل نہ آسکیں۔بات کریں ضلع مظفر گڑھ کے اہم تقریباً ایک لاکھ آبادی پر مشتمل علاقہ شاہ جمال کی جو راقم کا آبائی شہر بھی ہے یہ پورے کا پورا شہر جوہڑ بن چکا ہے۔ گلیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہےں۔گٹر ابلنے سے وبا پھیل چکی ہے۔اس قصبہ کے ارد گرد 86مواضعات بستے ہیں۔اتنی بڑی تعداد کیلئے شہر میں ایک بوائز سکول ہے جبکہ گرلز سکول موجود نہیں نہ کالج ہے ۔18سے بیس گھنٹے لوڈشیڈنگ کے راقم خود شاہد ہیں۔یہاں گلیاں محلے سڑکیں قبضہ مافیا کے نرغے میں ہیں۔تاریخ بتاتی ہے کہ کال اور سرکنڈے کی وجہ سے اس شہر کا نام کینجھر رکھ دیاگیا۔1790ءمیں بہاول خان دوئم نے اس شہر پر قبضہ کرلیا۔ 1818ءمیں سکھوں کا قبضہ ہوا اور 1849ءمیں انگریزوں نے اسے ضلع خان گڑھ کی تحصیل کا درجہ دے دیا۔ اس شہر کا نام 1878ءمیں تبدیل کرکے یہاں کے معروف صوفی بزرگ بابا شاہ جمال کے نام کی مناسبت سے شاہ جمال رکھ دیا گیا۔ 1849ءمیں تحصیل کا درجہ حاصل کرنے والا شہر آج تحصیل بننے کا حقدار کیوں نہیں جہاں آبادی کافی حد تک بڑھ چکی ہے۔ پورے شہر میں سیوریج کا یہ حال ہے کہ پیدل چلنا بھی محال ہوچکا ہے۔ گلیوں کے ڈھکن اُبل پڑے ہیں۔ یہاں کے ایم این اے جمشید احمد دستی دوسری بار اور ایم پی اے ملک قسور لنگڑیال تیسری بار منتخب ہوئے ہیں مگر اس شہر کی قسمت نہیں بدلی۔جمشید دستی نادرا،نیشنل بنک،زرعی بنک سمیت کچھ دفاتر وفاقی حکومت سے منظور کراکر لائے مگر موجودہ دور میں وہ بھی عوام کا کوئی کام نہیں کر پا رہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ شاہ جمال کی اس حد تک ابتر صورتحال ہوچکی ہے کہ پورے شہر میں تعفن پھیل چکا ہے۔ مگر مجال ہے کہ مقامی ایم این اے جمشید دستی، ایم پی اے قسورر لنگڑیال اور ڈی سی او عابد شوکت کو زحمت ہوئی ہو کہ وہ جاکر لوگوں کے مسائل ہی سن لیں۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سیوریج پائپ انتہائی چھوٹے لگائے گئے جو بند ہو جاتے ہیں۔پلان کے مطابق کہا گیا تھا کہ پانی موٹر سے نہر میں ڈالا جائے گا مگر کچھ نہ ہوا۔جس کی وجہ سے سیوریج بند ہو گیا۔حال ہی میںبھاری بجٹ پر جو روڈ بنگلہ ملاں والا چوک تک ریپئر کی گئی وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور گڑھے بن چکے ہیں۔ٹاوٹوں اور پٹوار مافیا کے ذریعے ناجائز تجاوزات اور قبضوں کی بھرمار ہے۔غرض یہ شہر تباہ حالی کا منظر پیش کر رہا ہے اور خادم اعلیٰ کی خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔ایم این اے جمشید دستی سے جب بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ ہر سطح پر جنوبی پنجاب کے لوگوں کی آواز بلند کر رہے ہیں۔صوبائی حکومت کے نمائندے کمیشن اوربھتہ مافیا کے سرپرست ہیں۔اینٹی کرپشن سمیت سب ادارے اپنا حصہ وصول کر رہے ہیں۔انہوں نے شاہجمال کیلئے کافی کام کیے مگراب حکومت نے انکے فنڈز بند کر رکھے ہیں۔عوامی راج پارٹی کے پلیٹ فارم سے عام لوگوں کو سامنے لاکر مسائل حل کریں گے اور شاہجمال کو تحصیل بنائیں گے۔ایم پی اے ملک قسور لنگڑیال نے بتایا کہ ناقص سیوریج سسٹم کیخلاف اینٹی کرپشن گئے ہوئے ہیں۔اگر لوگوں کو مسائل ہیں تو آکر بتائیں۔ابھی حکومت نئی تحصیلیں نہیں بنا رہی۔ڈی سی او نے بھی شہر کا وزٹ کیا ہے۔مسائل حل کریں گے۔ڈی سی او عابد شوکت نے بتایا کہ ترقیاتی منصوبے میرٹ پر پراسس کے ذریعے دیے جاتے ہیں۔شاہجمال کو تحصیل کا درجہ ابھی نہیں دے رہے۔شاہجمال میں ناقص سیوریج سسٹم کا نوٹس لے کر کارروائی کریں گے۔سوال یہ ہے کہ یہاں کے رہنے والے لوگ پاکستان پر حق نہیں رکھتے؟ تحصیل کا درجہ ملنا ان کا حق نہیں؟ کیا ان کا حق نہیں کہ وہ بھی صاف ستھرے ماحول میں زندگی کی سانس گزار سکیں۔ کیا یہاں بچیاں اور بچے کالج کے حقدار نہیں؟ کیا حکومتی نمائندے اور بااثر طبقات جو منصوبوں میں کمیشن لے رہے ہیں اور ناقص میٹریل کی بدولت شہر اجڑ چکا ہے۔ ان سے باز پرس کون کرے گا؟ جمشید دستی اور حکومت کی چپقلش کی سزا حلقہ کے لوگوں کو کیوں دی جارہی ہے۔کرپشن اور بیوروکریسی کی نااہلی کو کوئی پوچھنے والا نہیں؟ خادم اعلیٰ آپ اکثر مظفر گڑھ جاتے رہتے ہیں اور آپ لوگوں کے مسائل حل بھی کرنا چاہتے ہیں۔ ایک بار شاہ جمال بھی چلے جائیں اور وہاں کی حالت زار دیکھ کر اور ان لوگوں پر ترس کھاتے ہوئے کرپٹ مافیا اور نااہل سیاستدانوں کو سزا ضرور دیں۔ شاہ جمال اور ضلع مظفر گڑھ کی عوام آپ کی منتظر ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن