’’ایسی نوبت کیوں آئی‘‘
رائیونڈ مارچ کا اعلان۔ نوبت کیوں آئی ؟ خالصتاً جمہوری نقطہ نظر سے دیکھیں تو یہ طریقہ تب اختیار کیا جاتا ہے جب "حکومت" اپنے ووٹرز کا اعتماد کھو دے ، اپنے فرائض کی ادائیگی میں عملاً نا کام ہو جائے ، یا ریاستی امور کی انجام دہی میں حکومت اپنی رٹ منوانے میں کامیاب نہ ہو۔ ظاہری طور پر حالات کو دیکھیں تو حکومت موجود ہے، ادارے کام کر رہے ہیں ، کِسی حد تک" حق نمائندگی "کا اعتماد بھی حاصل ہے ، ریاستی امور۔ چلانے میں بھی کوئی دقت نہیں ، خود حکومت بیک وقت اپوزیشن ۔ حکومت کا کردار ادا کر رہی ہے یہی تصویر ہمیں پچھلے دور حکومت میں بھی نظر آتی تھی ۔ عوام کے مسائل تب بھی حل نہیں ہوئے اب حالات پہلے سے بدتر ہیں ۔ سب سے سنگین مسئلہ بگڑتے سیکورٹی حالات ہیں ۔ اِس ایشو پر حکومت کی چُنداں دلچسپی نہیں بیانات پر جوش ضرور ہیں مگر عملاً کارکردگی "زیرو "۔ صوبائیت کا بڑھتا ہوا رجحان کم خطرناک نہیں۔ اگر پہلے سال پارٹی منشور پر عمل درآمد شروع ہو جاتا تو آج" پانامہ لیکس" بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا ۔ منصوبوں کو لٹکانے، منشور کی خلاف ورزی‘ ایسی صورتحال پیدا کرنے کا موجب بنی ۔ سب سے بڑی بنیادی بات تو یہی ہے کہ اگر کچھ کیا نہیں تو پھر ڈرنے کی کیا ضرورت ہے ، جب چار حلقوں کی بات چلی تو پہلے ہلے میں معاملہ قانون کیمطابق نمٹا دینا چاہیے تھا ، اسی طرح "پانامہ پیپرز" کے معاملہ کو محاذ آرائی میں بدلنے کی روش سے نقصان صرف اور صرف "ملک، قوم" کو بُھگتنا پڑ رہا ہے ، مسلسل احتجاجی ٹرک میں سوار جماعتوں کا طرز عمل قوم میں فرسٹریشن ، مایوسی اور نفرت کے جذبات پیدا کر رہا ہے ، جمہوری ممالک میں عوامی معاملات کو قانون ساز ایوانوں میں نمٹانے کا طریقہ کار اپنایا جاتا ہے ، یہاں جمہوریت کے پروردہ ہونے کے باوجود "اسمبلیوں کی نفی" کا اظہار صحتمندانہ روایات کے خاتمے کا باعث بن رہا ہے کہ عملاً ہمیں جمہوریت نہیں چاہیے ، یہ تصویر "ڈکٹیٹر شپ "ذہنیت کی حامل جماعتوں کی موجودگی کا اقرار کرتی ہے ۔ غلطیاں ہیں ، بہت زیادہ غلطیاں اور وہ بھی فاش، جب ایسا ہو تو جلسوں کی حاضری کم ہوگی ، مزید کم ۔6"ستمبر" کو پاک دھرتی یوم دفاع کی پر جوش تقاریب سے سجی دکھائی دی ۔ عزم و ہمت کی داستانیں ، قومی رہنماوٗں کے بیانات نے قوم کے جذبات کو گرمائے رکھا، سب سے زیادہ موثر ، قابل پذیرائی تقریر" پُرعزم سپہ سالار" کی تھی‘ جن کے بیانات کا عزم عملی کاروائیوں میں بھی جھلکتا ہے ۔ اِس طرف سے اُٹھتی کشمیریوں کے حق میں آواز یں ہمیشہ سے دشمن کے منہ کے ذائقہ میں کڑواہٹ پیدا کرتی ہیں ، اِس طرف" یوم فتح" کا سرور ، جوش تھا دوسری طرف "شکست کھانے والا" ایل او سی اور مقبوضہ وادی" میں ظلم و ستم کی مزید خونی کہانیاں رقم کرنے میں مصروف ،" دشمن "کا غم ڈبل ہے نہ اِس طرف کے لوگ اُس سے خوفزدہ ہو رہے ہیں (پے درپے حادثوں کے باوجود) اور نہ اُسکی پیلٹ +مرچوں بھری گنوں کے آگے سینہ تاننے والوں کی تعداد میں کوئی کمی ہو رہی ہے ، فورسز کی تعداد بڑھانے کے بعد اب" حریف قیادت "کیخلاف کریک ڈاوٗن کا مقدر بھی ہمیشہ کی ناکامی ہے ۔ "یوم دفاع" پر کشمیریوں کی عظیم قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے علاوہ اُنکی ہر ممکن سفارتی، اخلاقی مدد جاری رکھنے کا اعلان تحریک میں تقویت پیدا کرنے کا باعث بنے گا ، دوستی نبھانے اور دشمنی کا قرض اتارنے کا عزم سُنا اور غور سے سُنا ، 70" سالوں" کی تاریخ کو سامنے رکھ کر سوچا تو تاریخ نے گواہی دی کہ اِس طرف سے تو ہر حکومت نے ، ہر رہنما نے، ہر تاجرنے سرحد کے اُس پار ہمیشہ خیر سگائی ، تعاون (تاجرانہ۔ سیاسی) کے پھول بجھوائے اور ہوس منافع کا نشانہ اپنے ہم وطن بنے، بقیہ کسر ثقافتی طائفوں نے پوری کر دی ۔ صرف دشمن نہیں ایسے لوگوں سے بھی آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے، لمحہ موجودکی پُکار ہے ، کہیں قوم کی یہ تمنا ، آرزو ادھوری نہ رہ جائے70"سالوں کی طرح"۔ امن صرف سرحدوں کا مقدر نہیں ، اندورنی حالات بھی امن کے متلاشی ہیں ، اِس ذمہ داری کو نبھانے میں چاروں حکومتوں سمیت درجنوں ادارے مصروفِ کار نظر آتے ہیں مگر دھندلایٹ دُور نہیں ہو پارہی ، تصویر کی اپنی شکل میں واپسی کی راہ میں جانے، انجانے کنٹینرز کھڑے کیے جارہے ہیں ، "نیشنل" کا مطلب ہے" قومی "نیشنل ایکشن پلان پر سبھی اداروں ، حکومتوں ، سیاسی قیادت نے بلا مشروط آمنا و صدقنا کہا تھا بلکہ ہر کسی کی کوشش تھی اور ہے کہ وہ سب سے بڑے سپورٹر کے طور پر سامنے آئے ، بیانات شاہد ہیں ، اگر عمل درآمد ہو رہا ہے تو پھر یہ کہنے کی نوبت کیوں آئی کہ پورے ملک میں عمل یقینی بنایا جائے ۔ یقینا پنجاب کے حالات "کراچی "سے بدرجہا بہتر ہیں اتحادی + ہمسائے ، برادر مسلم ممالک کی بیک وقت دشمنی نما دوستی سہتا پاکستان ، متحدہ اکائی کیلئے متحد ہونا ، یکجا ہونا پہلی ترجیح نہیں ضرورت ہونی چاہیے ؟ قومی پلان بلا تخصیص پورے ملک کیلئے منظور کیا گیا تھا ، تعصب ، جانبداری کے الزام کی نوبت کیوں آئی ؟ کیا مجرم صرف کراچی میں بنتے ہیں انتہا پسند صرف قبائلی پٹی سے اُترتے ہیں ؟ جب ہمارا تعلق کِسی جرائم پیشہ گروہ سے نہیں ، ہماری لُغت میں کرپشن کا لفظ نہیں تو پھر کاروائی میں ٹال مٹول ، تاخیر میں حیلہ سازی کیوں؟
پوری قوم امن چاہتی ہے ، جس کی نظریاتی اساس" قرار داد مقاصد "ہے ، واقعی ضرب عضب محض فوجی آپریشن نہیں ، یہ" لا الہ الا اللہ "کے نام پر بننے والے ملک کی بقا کی جنگ ہے ، "شافعِ محشر ، محسن انسانیت، محمد عربی رسول مقبول ﷺ" کی تلوار مبارک کا نام۔ کاغذوں میں نہیں ، انگنت ، تصویریں، لاتعداد فلمیں ہیں ، ہر ایک کے پاس ثبوت ہیں ، ٹھوس شواہد کافی ہیں وطن فروشی کے ناسور کی جڑیں کاٹنے کیلئے مگر، اِس مگر کے بعد دکھ ، مایوسی کی ایک لمبی آہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔ عوام تو پہلے ہی اُس کشتی پر سوار ہیں جو بغیر ملاح کے بِپھرے دریا میں تیر رہی ہے ۔ سیاست کا جرائم سے کیا تعلق ، اِسی طرح ملک سے وفادار ہیں تو پھر کاروائی سے کیوں احتراز ؟ سیاسی سوچ کو جاگیردار کی قیدسے آزاد ہونا چاہیے ۔ خرابی در خرابی کے بعد عضب تلوار سے ہر اُس گٹھ جوڑ کو کاٹ دینا چاہیے جو اس ملک کی سالمیت کیخلاف ہے ، اتنی مایوسی کی نوبت کیوں آئی ، شک نہیں آج کا پاکستان ناقابل تسخیر ہے سب سے بڑا ثبوت اندرونی و بیرونی وطن دشمنوں کے "کارٹلز" کی گھناونی وارداتیں بھی قوم کو وطن کی محبت میں ایک سطر پیچھے ہٹانے میں ہنور ناکام ہیں ۔