• news
  • image

اصل مسئلہ الطاف حسین یا مہاجر قومیت کا نعرہ؟

آپ ایک بڑی وزنی شے لیں اور اُس پر غلاف چڑھا دیں۔ کچھ عرصے بعد اُسکے بھاری بھرکم وجود سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے غلاف بدل کر اُس شے کی جگہ بھی تبدیل کر دیں۔ کیا اس طرح اُسکے وزنی بوجھ کا خطرہ ختم ہو جائیگا؟ اس مثال کے حوالے سے ایم کیو ایم کے مسئلے کو لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں تقریباً سب ایک ہی دائرے میں گھومتے محسوس ہوتے ہیں۔ مثلاً کسی کے خیال میں ایم کیو ایم دھڑوں میں تقسیم ہونے سے کمزور ہو جائیگی، کسی کے خیال میں ایم کیو ایم کی طبعی موت بہتر ہے، کسی کے خیال میں ایم کیو ایم پر پابندی لگ جانی چاہئے، کسی کے خیال میں ایم کیو ایم کو توڑے بغیر اُسے فاروق ستار کی قیادت میں مثبت سرگرمیوں کی طرف لانا چاہئے، کسی کے خیال میں الطاف حسین کا چیپٹر ختم ہوگیا یا کسی کے خیال میں یہ سب ڈرامہ بازی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اِن تجزیوں کے علاوہ ایم کیو ایم کے مسئلے کی اصل شناخت کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا۔ کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ اس جماعت کا اصل وجود کیا مہاجر قومیت نہیں ہے؟ الطاف حسین، آفاق احمد، عظیم طارق، عمران فاروق، مصطفی کمال یا فاروق ستار، سارے کے سارے مہاجر کمیونٹی میں مہاجرازم کو ہی بہت اجاگر کرتے ہیں۔ ہسٹری کی کتابوں میں یہ بات پکی لکھی ہوئی ہے کہ جب کچھ لوگ قومیت کی بنیاد پر اپنی پہچان بنالیں تو اُنکے آپس کے اختلافات جیسے بھی ہوں، اپنی قومیت کے دفاع کیلئے درپردہ ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے رہنما اردو سپیکنگ مہاجر کمیونٹی کی قیام پاکستان کے وقت ہجرت کی قربانیوں کی باتیں پاکستان پر احسان کے طور پر کرتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں اس بات کی زیادہ سے زیادہ تشہیر ہونی چاہئے کہ 1947ء سے کس کس کمیونٹی نے ہجرت کی اور کیسی کیسی قربانیاں دیں۔ برصغیر کی ہجرت کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا حصہ اُس وقت کے متحدہ پنجاب کے دو ٹکڑے ہونے سے متاثر ہونے والوں کا تھا۔ جیسے پنجاب کٹا ویسے ہی اپنے اپنے پنجاب کی تلاش کرنیوالے کٹتے گئے۔ تقسیم ہند کی خونریز تاریخ بتاتی ہے کہ جان مال اور اپنی عزتوں کی سب سے زیادہ قربانیاں پنجاب میں ہوئیں۔ انہی پر اُداس نسلیں، آگ کا دریا جیسے ناول اور منٹو کے لازوال افسانے سامنے آئے۔ ان سب برباد کاریوں کے باوجود پنجاب میں اپنے آپکو کوئی مہاجر نہیں کہتا۔ دوسرا حصہ دہلی، لکھنئو اور اردو بولنے والے دیگر علاقوں سے پاکستان آنیوالوں کا تھا۔ اُن کیلئے کراچی اور حیدرآباد کا لسانی اور ثقافتی ماحول اُنکے سابقہ ماحول سے کسی حد تک مطابقت رکھنے کے باعث پرکشش تھا۔ ہجرت کرنے والوں کا تیسرا حصہ اُن لوگوں پر مشتمل ہے جو 50ء اور 60ء کی دہائی میں پاکستان آئے۔ ایسے مہاجرین کو جان مال اور عزت جیسے عمومی تشدد کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ان کا تعلق بھی لسانی اعتبار سے اردو بولنے والی کمیونٹی سے تھا۔ لہٰذا یہ بھی اپنے سے پہلے آنیوالے اردو سپیکنگ لوگوں کیساتھ کراچی اور حیدرآباد جاکر بسے۔ کراچی اور حیدرآباد جاکر آباد ہونیوالے اردو سپیکنگ لوگوں نے اپنے آپ کو مہاجر کہلوانے کو ترجیح دی۔ چوتھا حصہ ہجرت کرنیوالے ایسے اردو سپیکنگ لوگوں کا تھا جو کراچی اور حیدرآباد کی بجائے پنجاب اور ملک کے دوسرے حصوں میں آباد ہوئے لیکن وہ مہاجر کی بجائے پاکستانی کہلوانا چاہتے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد مظلوم مہاجرین کی فہرست میں ہم پانچویں حصے کو ہمیشہ نظر انداز کردیتے ہیں۔ پنجابی اور اردو سپیکنگ لوگوں کے علاوہ 1947ء کے بعد لاتعداد کشمیری بھی مہاجر ہوکر پاکستان آئے لیکن انہوں نے آج تک کبھی اپنے آپ کو مہاجر نہیں کہا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 70 برس سے کشمیری جان مال عزت لٹا کر بھی اپنے آپکو پاکستانی کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ کشمیری لازوال قربانیوں کے بعد بھی اپنی شناخت مہاجر نہیں بنانا چاہتے۔ کراچی اور حیدرآباد میں آباد ہونے والے اردو سپیکنگ لوگ اب ایم کیو ایم کی شکل میں موجود ہیں جس کی قیادت بدلنے سے ایم کیو ایم کا مزاج نہیں بدل رہا۔ ایم کیو ایم کے اندر نئی ابھرنے والی یا الطاف حسین سے اختلاف کرکے نئی جماعتیں بنانے والی مختلف قیادتیں بھی اردو سپیکنگ لوگوں کو مہاجر کمیونٹی کے جذباتی نعرے کے تحت ہی اکٹھا کررہی ہیں۔ اگر کراچی اور حیدرآباد کے اردو سپیکنگ لوگوں کو مظلوم مہاجر کے طور پر مختلف دھڑے بندیوں کے زیرتحت جمع کرنے کی کھینچا تانی جاری رہی تو ہو سکتا ہے کچھ عرصے بعد الطاف حسین کی حمایت میں آوازیں دوبارہ سے بلند ہونا شروع ہو جائیں کیونکہ دھڑے بندیوں سے کسی بھی کمیونٹی میں مایوسی پھیلتی ہے۔ اسکے فطری نتیجے میں کراچی اور حیدرآباد کے اردو سپیکنگ لوگ یہ سوچ سکتے ہیں کہ الطاف حسین کی قیادت میں جماعتی توڑ پھوڑ کا کوئی اہم ایشو نہ ہوا جبکہ اُن کو قیادت سے ہٹائے جانے کے بعد دھڑے بندیاں شروع ہو گئیں جس سے مہاجر کمیونٹی کے مفادات متاثر ہوئے۔ ایم کیو ایم کیلئے تحریک کا لفظ استعمال کرنا اور الطاف حسین کیلئے قائد تحریک کا لفظ استعمال کرنا اس بات کی نشانی ہے کہ کراچی اور حیدرآباد کے اردو سپیکنگ لوگ اپنی مہاجر قومیت کی شناخت کو تحریک کی صورت میں زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ جب تک ایم کیو ایم الطاف حسین کو قائد کہنا نہ چھوڑ دے اور اپنی جماعت کے ساتھ تحریک کا لفظ ہٹا نہ دے تب تک مہاجر قومیت کا نعرہ مضبوط ہی رہے گا۔ اوپر دیئے گئے تمام دلائل پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پنجاب اور کشمیر میں ہجرت کرکے آباد ہونیوالے اردو سپیکنگ یا کسی بھی کمیونٹی کے لوگ اپنے نام کے ساتھ مہاجر نہیں لگاتے جبکہ کراچی اور حیدرآباد میں آباد اردو سپیکنگ لوگ اپنے نام کیساتھ سے مہاجر نہیں ہٹاتے اس لئے سوچنے اور فکر کرنے کی بات یہ ہے کہ کراچی کا اصل مسئلہ الطاف حسین ہے یا مہاجر قومیت کا نعرہ؟

epaper

ای پیپر-دی نیشن