• news
  • image

ڈاکٹر امرجیت سنگھ کی بھی سُن لی جائے!

متحدہ قومی موومنٹ کے برطرف قائد الطاف حسین کے پاکستان مخالف نعروں میںمودی کا چھپا چہرہ زیرنقاب نہیں رہا پاکستان میں ہر ذی شعور ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر اسکی گہرائی میں اتر گیا تھا بلکہ واشنگٹن ڈی سی میں موجود خالصتان تحریک کے سربراہ ڈاکٹر امرجیت سنگھ بھی اس حقیقت کو جان گئے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر بلوچستان، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں گڑبڑکرانے کی بات کی جب اپنی ناکامی صاف نظر آئی تو اگلا پتہ الطاف کی صورت میں پھینک کر کراچی میں صورتحال خراب کرکے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی ایک اور ناکام کوشش کی۔ ڈاکٹر امرجیت سنگھ نے بھارتی ٹیلی ویژن ٹی وی 84 کو دئیے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ الطاف حسین نے پاکستان مردہ باد کا نعرہ مودی اور ’’را‘‘ کی شہ پر لگایا۔بھارت کو معلوم ہے کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے ، اگر وہ عدم استحکام کا شکار ہو گا تو پاکستان کی معیشت متاثر ہوگی، ہمیں پاکستان سے پیسہ ، ہتھیار یا کوئی فوجی تربیت نہیں چاہیے، پاکستان کے پاس بہت اچھا موقع ہے کہ وہ سفارتی طریقے سے بین الاقوامی سطح پر سکھوں کی تحریک کی حمایت اور ہمارے جائز دعوے کو منوانے میں مدد کرے یہ ہم دونوں کے فائدے میں ہے ، بھارت کا بلوچستان سے کوئی تعلق ہی نہیں ،مودی سرکارکو سمجھ نہیں آرہی کہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال سے کیسے نمٹا جائے اسی لیے اس نے بلوچستان کا پتہ کھیل دیا۔ایم کیو ایم کے لوگ وہ مہاجر ہیں جو 1947میں اتر پردیش اور بہار سے ہجرت کر کے پاکستان گئے ، کراچی میں اس پارٹی کا کنٹرول ہے اور حال ہی میں انکی تحریک بہت پرتشدد رہی ہے۔ الطاف حسین جن پر بہت سے مقدمات ہیں وہ لند ن میں بیٹھ کر پارٹی چلا رہے ہیں اور وہاں سے بیٹھ کر اپنے لوگوں کو لیکچر دیتے ہیں ، ایم کیو ایم کے بہت سے گینگ مافیا ہیں۔ الطاف حسین نے پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگایا، شیم آن پاکستان جیسی باتیں کیں جس پر ان کیخلاف غداری کے مقدمات درج ہوئے، یہ پتا بھی مودی نے کھیلا ہے، مقبوضہ کشمیر میں جو صورتحال ہے اس پر مودی سرکار کو سمجھ نہیں آرہا کہ اس سے کیسے نمٹیں کیونکہ آج مقبوضہ کشمیرکے عوام اپنی آزادی کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور بھارتی حکومت کشمیر میں فوجیں داخل کر رہی ہے تا کہ کشمیریوں کو دبایا جا سکے۔ پاکستان کو اپنے کنٹرول میں کرنے کیلئے بھارت نے بلوچستان کا پتا بھی کھیل لیا، مودی نے گلگت اور آزاد کشمیر کی بھی بات کر لی۔ جس انداز میں الطاف حسین نے کھل کر پاکستان کیخلاف بات کی ہے ایسا کسی کی شہ ملے بغیر ممکن نہیں۔پاکستان کے قانون سازوں ، تجزیہ کاروں اور فیصلے کرنیوالوں کو اب بھی سکھ فیکٹر کی سمجھ نہ آئی توبہت دیر ہوجائیگی کوئی فوجی تربیت نہیں چاہیے ، ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان سفارتی طور پر بین الاقوامی سطح پر سکھوں کی تحریک کی حمایت کرے اور ہمارے جائز دعوے کو منوانے میں مدد کی جائے۔ بھارت کا بلوچستان سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے، لیکن جس طرح پاکستان کے ساتھ سکھوں کا تعلق ہے ،ہمارے وہاں گوردوارے ہیں ، ننکانہ صاحب ، پنجہ صاحب ، ہم سمجھتے ہیں اب جو وقت ہے ،پاکستان ہماری حمایت کرے۔ بھارت میں سکھ امتیازی سلوک روا رکھے جانے سے بھی نچلی سطح کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ڈاکٹر امرجیت سنگھ کے اس بیان میں پاکستانیوں کیلئے بالخصوص فیصلہ سازوں اور فیصلوں پر عملدرآمد کرنے والوں کیلئے سوچنے سمجھنے کا بہت سامان ہے بات اشاروں میں نہیں کسی ابہام کے بغیر کی گئی ہے۔ اگرچہ گولڈن ٹیمپل پر بھارتی فوج کی چڑھائی اور بھنڈرانوالہ کی ہلاکت کے بعد خالصتان تحریک کا زور کم ہوگیا مگر یہ ختم نہیں ہوئی بلکہ اسکی کیفیت اندر ہی اندر سلگنے والی چنگاری کی طرح ہے جو کسی بھی وقت شعلوں میں تبدیل ہوکر بھارتی استبداد کو جلا کر بھسم کرسکتی ہے اگر پاکستان اس مرحلے پر جبکہ بھارت نے براہمداغ بگتی کو بھارت بلاکر نام نہاد تحریک آزاد بلوچستان کی حمایت اور بلوچستان کی آزادی کا نعرہ کسی جھجھک کے بغیر یعنی بین الاقوامی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی کرکے لگادیا ہے۔ کلبھوشن کے ذریعہ بلوچستان میں دہشت گردی کا منصوبہ بنایا اور علیحدگی پسندوں کو ہتھیار اور پیسہ فراوانی سے فراہم کیا جسکے واضح ثبوت بھی موجود ہیں تو پاکستان کیلئے خالصتان تحریک کی حمایت میں کسی تذبذب کا شکار ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے بلکہ قدرتی ردعمل کے طور پر پاکستان کو خالصتان تحریک کی حمایت کرنی چاہیے اس کا بہترین موقع خود بھارت نے فراہم کردیا ہے۔ ڈاکٹر امرجیت سنگھ نے بالکل درست کہا ’’پاکستان کے قانون سازوں‘ تجزیہ کاروں اور فیصلے کرنیوالوں کو اب بھی سکھ فیکٹرکی سمجھ نہ آئی تو بہت دیر ہوجائے گی جہاں تک حکومت کا تعلق وہ اس سلسلے میں مصلحتوں کا شکار رہے گی محب وطن افراد اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کو پاکستان میں موجود سکھوں کو منظم کرکے انکے ساتھ مل کر خالصتان تحریک کی حمایت میں مظاہرے کرنے چاہئیں ویسے مشرقی پنجاب کے پڑوس میں واقع جموں وکشمیر میں آزادی کی جو تحریک اپنے پورے بانکپن کے ساتھ جاری ہے سکھوں نے بھی اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر واہگہ سے جمنا کنارے تک خالصتان تحریک کو دوبارہ منظم نہ کیا تو انہیں بھی دیر ہوجائیگی۔
دریں اثناء ڈاکٹر امرجیت سنگھ کو یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ وہ اور امریکہ‘ یورپ ‘ کینیڈا اور افریقی ممالک میں آباد سکھ وہاں خالصتان کے قیام کی تحریک کیلئے مظاہروں کا سلسلہ شروع کریں اس سے پاکستان ہی نہیں دیگر ممالک کو بھی سفارتی سطح پر ان کیلئے آواز اٹھانے کا جواز مہیا ہوجائیگا۔ موجودہ مرحلے میں جبکہ بھارت یا بھارت سے باہر خالصتان تحریک کا تحریکی وجود نظر نہیں آرہا پاکستان کس بنیاد پر سفارتی سطح پر آواز بلند کرسکتا ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن