• news

کراچی میں ہر طبقے کے لوگ بستے ہیں‘ کوئی اسے اپنا نہیں سمجھتا : چیف جسٹس

کراچی(صباح نیوز)سپریم کورٹ نے کراچی میں بارہ ہائیڈرنٹس چلانے کی استدعا مسترد کردی ، چھ کے علاوہ تمام واٹر ہائیڈرنٹس تین دن میں بند کرنے کا حکم دیدیا گیا، غیرقانونی ہائیڈرنٹس کے ٹینڈر ڈمی اخبار میں چھپوانے پر ایگزیکٹیو انجینئر راشد صدیقی کے خلاف کارروائی سے متعلق ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرلی ۔سپریم کورٹ میں ہائیڈرنٹس سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی دوران سماعت ایم ڈی واٹربورڈ مصباح الدین فرید نے کراچی میں ہائیڈرنٹس کی اہمیت اور پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے رپورٹ جمع کرادی،رپورٹ میں ایم ڈی واٹربورڈ نے بتایا کہ کراچی کے ہر ضلع میں ایک ہائےڈرنٹس چلانے کی اجازت دی جائے،کراچی میں چھ ہائےڈرنٹس کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے رکھنا چاہتے ہیں،اس وقت 12 ہائےڈرنٹس چل رہے ہیں،ایک ہائےڈرنٹ این ایل سی کے لئے رکھا گیا ہے۔چیف جسٹس نے رپورٹ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرا گھر ڈیفنس میں ہے آج تک پانی کا ایک قطرہ لائن سے نہیں آیا،جسٹس امیر ہانی مسلم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کراچی کو پانی دینے کے لئے والو مین کو اختیار دیا گیا ہے آپ میٹر نہیں لگانا چاہتے،صرف والو مین سے پانی دینا چاہتے ہیں۔ اس موقع پرعدالت نے چھ کے علاوہ باقی ہائیڈرنٹس تین روز میں ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ چھ ہائیڈرنٹس کے لئے پانچ ہفتوں میں ٹینڈر بھر کے عدالت میں رپورٹ جمع کرائی جائے۔دوران سماعت عدالت نے غیرقانونی ہائیڈرنٹس کے ٹینڈر ڈمی اخبار میں چھپوانے والے ایگزیکٹیو انجینئر راشد صدیقی کے خلاف کارروائی سے متعلق استفسار کیا جس پر ایم ڈی واٹربورڈ نے بتایا کہ انہیں عہدے سے ہٹادیا گیامگر ان کے خلاف کارروائی کوئی نہیں کی گئی جس پر عدالت نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ وہ طاقتور ہوں گے اس لئے کارروائی نہیں کی ،چیف جسٹس پاکستان نے انجنیئر راشد کے خلاف کارروائی کی ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ سماعت عید کے بعد تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس انورظہیر جمالی کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ کراچی میں ماحولیاتی آلودگی، سالِڈ ویسٹ مینجمنٹ اور پانی کا مسئلہ یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یہاں ہر طبقے کے لوگ بستے ہیں لیکن کوئی اس شہر کو اپنا نہیں سمجھتا، کوئی بھی ادارہ کراچی کی ذمہ داری لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ واٹر بورڈ پانی فراہم نہیں کرتا تو کے ایم سی کچرا اٹھانے کو تیار نہیں۔ کے ایم سی اور واٹر بورڈ میں بڑی تعداد میں گھوسٹ ملازمین ہیں۔ انہیں شہریوں کے مسائل کے حل سے کوئی سروکار نہیں، یہ لوگ گھر بیٹھے تنخواہیں لیتے ہیں۔چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ کب تک کراچی والے پینے کے پانی کو ترستے رہیں گے، اول تو پانی نہیں ملتا اور جہاں ملتا ہے گندا پانی دیا جاتا ہے، جن علاقوں میں پانی نہیں پہنچتا اب وہاں احتجاج اور ہڑتالیں ہونے لگی ہیں، پانی فراہم کرنا عدالت کا مسئلہ نہیں لیکن عوامی مفاد عامہ کا مسئلہ ہے ،اس لئے عدالت کو مداخلت کرنا پڑی۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈی ایچ اے سمیت بڑے بڑے سفید ہاتھی بیٹھے ہیں، ڈی ایچ اے فیز ون میں 2001 سے رہ رہا ہوں لیکن آج تک لائن سے پانی نہیں ملا۔ ڈی ایچ اے کے 90 فیصد مکین ٹینکرز خریدنے پر مجبور ہیں۔ پانی کی قلت ہے تو ٹینکرز کے لئے پانی کہاں سے آتا ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ وال مینوں کے ذریعے شہر کا پانی کنٹرول ہوتا ہے، واٹر بورڈ پانی فراہم نہیں کرسکتا تو پھر اسے ٹھیکے پر دے دیں۔
چیف جسٹس

ای پیپر-دی نیشن