• news

رضا ربانی نے ”گلی دستور“ قائم کر کے پارلیمنٹ کو جمہوریت کا مورچہ بنا دیا

قائم مقام صدر میاں رضا ربانی نے چیئرمین سینیٹ کی حیثیت سے ’’گلی دستور ‘‘ پارلیمنٹ کی پہلی منزل کے ایک گوشہ میں قائم کی ہے جس میں تاریخ پاکستان کو تصاویر کے ذریعے روشناس کرایا گیا، اس گلی میں پانچ پینل ہیں اور فرش پر لگی ٹائلز جمہوری دور میں پاکستان میں موجود مواقع ظاہر کرتی ہیں ان کے ساتھ لگی چھوٹی ٹائلز جمہوری نظام پر لگی پابندیوں کو ظاہر کرتی ہیں جو بعد ازاں آکریت کی سیاہ رات میں ڈھل گئیں، گلی دستور میں بنائی گئی بڑی پینٹنگز کے پینل میں دستور پاکستان کے حصول کی کوششوں کی عکاسی کی گئی ہے، قائم مقام صدر رضا ربانی نے سینئر صحافیوں کو ’’گلی دستور ‘‘ دکھانے کیلئے مدعو کیا ، قومی اسمبلی کے اجلاس کو اس لحاظ سے غیر معمولی اہمیت حاصل ہے کہ کئی ماہ کی غیر حاضری کے بعد ’’کپتان‘‘ قومی اسمبلی میں رونق افروز ہوئے ،عام تاثر یہ ہے وہ اپنے روایتی حریف سپیکر سردار ایاز صادق کی طرف سے ان کے خلاف ریفرنس الیکشن کمشن کو بھجوانے پر اپنا غصہ نکالنے اور قومی اسمبلی کے اجلاس سے مسلسل 40روز غیر حاضری کی شق سے بچنے کے لئے ایوان میں آئے، دلچسپ امر یہ ہے عمران خان کی آمد سے پہلے ہی ایاز صادق کرسی صدارت چھوڑ کر جا چکے تھے ، سردار ایاز صادق کے اٹھ کر چلے جانے ان کا عمران خان سے ’’ٹاکرہ ‘‘ نہ ہو ا،سردار ایاز صادق نے ان کی موجودگی میں کرسی صدارت چھوڑ کر درست فیصلہ کیا، اس طرح عمران خان کو ایوان کا ماحول مقدر نہیں کرنے دیا، ایاز صادق نے 45منٹ تک صدارت کی ، عمران خان کی تقریر کے دوران ایوان میں سناٹا طاری تھا ،حکومتی ارکان نے عمران خان کو کنفرنٹ نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا،ایوان میں کسی بھی رکن نے ایک دوسرے سے گپ شپ نہیں لگائی اور تقریر غور سے سنی۔ عمران خان کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوانے کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس میں پہلی بار آمد وزرا ئ￿ کی بڑی تعداد ا موجود تھی اس دوران خواجہ سعد رفیق پرچیوں پر کچھ لکھ کر کبھی پرویز رشید کے پاس جاتے اور کبھی چوہدری نثار علی خان کے پاس جا بیٹھے تھے، ایسا دکھائی دیتا ہے حکومت نے عمران خان کو جواب دینے کی بجائے ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ، سید خورشید شاہ نے پوری اپوزیشن کو قومی اسمبلی میں سپیکر کی موجودگی پر بائیکاٹ کی راہ پر لگا دیا اور تحریک عدم اعتماد لانے کی تجویز کو شرف قبولیت نہیں بخشا ،اپوزیشن کے پارلیمنٹ ہا?س میںہونے والے اجلاس میں قومی وطن پارٹی اور ایم کیو ایم کی نمائندگی موجود نہیں تھی ، ایوان بالا کے اجلاس میںوقفہ سوالات کے دوران حکومتی سینیٹر صلاح الدین ترمذی نے تسلی بخش جواب نہ ملنے پر ایوان سے واک آ?ٹ کر دیا ،حکومتی سینیٹرز کلثوم پروین ،غوث بخش نیازی،لیفٹنٹ جنرل(ر) عبدالقیوم اورحکومتی اتحادی جماعت کے سینیٹرز سمیت متحدہ اپوزیشن کے ارکان نے بھی جنرل(ر) ترمذی کا ساتھ دیا ، وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اور مشاہداللہ خان کے منانے پر بھی اپوزیشن ایوان میں نہ آئی تاہم حکومتی سینیٹرز ایوان میں آگئے مگر اپوزیشن کو قائد ایوان راجہ ظفرالحق منا کر لے آئے ،سینیٹر اعظم موسی خیل نے کورم کی نشاندہی ک کر دی لیکن گنتی پر کورم پورا نکلا۔
پارلیمنٹ کی ڈائری

ای پیپر-دی نیشن