مسئلہ کشمیر حل ہونے تک تمام عیدیں کشمیریوں کے نام کرتے رہیں گے : نوازشریف
اسلام آباد (این این آئی+ آئی این پی) صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ ہمیں دینی تعلیمات کی روشنی میں اپنی حقیقی اقدار اور سچی روایات کو فروغ دینے کےلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئے، عید کے پُرمسرّت موقع پر عوام دہشت گردی سے متاثر ہونے والے اپنے بہن بھائیوں کو بھی یاد رکھیں، کشمیریوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ عیدالاضحی کے موقع پر قوم کے نام تہنیتی پیغام میں صدر نے کہا کہ عید الاضحی اہم تہوار ہے یہ اس لازوال قربانی کی یاد میں منایا جاتا ہے جس کی نظیر عالم انسانیت میں نہیں ملتی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اطاعت واضح کرتی ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کی رضا کا حصول ہی مومن کا اصل مقصدِ حیات ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ عید ہمارے لئے اسلام کا ایک اہم رکن”حج“ ادا کرنے کا انعام بھی ہے۔ حج مبارک کی سعی و مناجات اور عید الاضحی کے موقع پر مسلمانوں کی طرف سے پیش کی جانے والی قربانی یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ اسلامی شعائر رنگ و نسل اور قومیت کے امتیاز سے قطع نظر ملتِ اسلامیہ کی وحدت کو یقینی بنانے کا ذریعہ ہیں، عید کے اس پُرمسرّت موقع پر ہمیں دہشت گردی سے متاثر ہونے والے اپنے بہن بھائیوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے‘ مشکل وقت میں ان کا ہاتھ بٹانا چاہیے۔ میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مصروف عمل مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کی طرف سے امن کی بحالی کے لئے کی جانے والی کوششوں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں چاہتا ہوںکہ قوم بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے تاکہ ترقی اور خوشحالی کی راہ ہموار ہوسکے۔ ہمیں اپنی دعاﺅں میںاپنے ان کشمیری بہن بھائیوں کو بھی یادرکھنا ہے جو اس وقت جبر و استبداد کی صعوبتیں برداشت کر تے ہوئے اپنے حق خودارادی کے حصول کی کوششوں میں مصروف ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اب و ہ وقت دور نہیں جب ان کی قربانیاں رنگ لائیں گی وہ آزاد فضا میںقومی و ملی تہوار منا سکیں گے۔ میں اس موقع پر پوری امتِ مسلمہ کو بھی عید کی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ یہ عید پوری دنیا اور خاص طور پر عالمِ اسلام میں امن و استحکام اور ترقی و خوشحالی کی نوید ثابت ہو۔ عید الاضحی کے پُرمسرت موقع پر اہلیان وطن کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ رب العزت ہم سب کو جذبہ ابراہیمی سے بھرپور عید منانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری قربانیوں کو اپنی بارگاہ میں قبولیت بخشے (آمین)۔ وہ وقت دور نہیں جب ان کی قربانیاں رنگ لائیں گی اور وہ آزاد فضا میں قومی و ملی تہوار منا سکیں گے۔ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ عیدالاضحی کے پ±ر مسرت موقع پرمیں پاکستان اوردُنیا بھر میں بسنے والے فرزندانِ اسلام بالخصوص کشمیری عوام کو دلی مبارکباد پیش کرتاہوں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ایک بار پھر یہ مبارک موقع عطا فرمایا۔ میں د±عا کرتا ہوں کہ آپ سب کی زندگی میں اس طرح کی خوشی کے مواقع بار بار آتے رہیں۔ عیدالاضحی حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی اطاعت اور حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی تسلیم و رضا کی یادگار ہے۔ خانوادہ ابراہیمؑ نے اپنے پروردگار کی خوشنودی کے لئے دُنیا کے ہر رشتے کو قربان کیا اور ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کی رضا کو ترجیح دی۔ اس کا نقطہ ءعروج بیٹے کی قربانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے باپ اور بیٹے کی اس ادا کو اس طرح شرفِ قبولیت بخشا کہ اسے حج کے مناسک کا حصہ بنا دیا اورمسلم معاشرے کے لئے لازم کر دیا کہ وہ اس روایت کو زندہ رکھیں۔ سیدنا ابراہیم نے اپنے طرزِعمل سے دنیا کو یہ بتایا کہ قربانی اپنے آپ کو اعلیٰ انسانی مقاصد کے لئے وقف کر دینے کا نام ہے۔ افراد کی قربانی ہی معاشرے اور قوم کو زندہ رکھتی ہے۔ یہی وہ سبق ہے جو قربانی کے ذریعے دیا جاتا ہے۔آج عید کے دن ہم کشمیری عوام کی قربانیوں کو بھی فراموش نہیں کر سکتے۔ کشمیری عوام اپنے حق خودارادیت کے حصول کے لیے بھارتی ظلم و جبر کے آگے اپنی تیسری نسل قربان کر چکے ہیں۔ ہم اپنی یہ عید کشمیری عوام کی ان لازوال قربانیوں کے نام کرتے ہیں آنے والی تمام عیدیں کشمیریوں کے نام تب تک کرتے رہیں گے جب تک مسئلہ کشمیر کو انکی امنگوں کے مطابق حل نہیں کیا جاتا۔آج عید کے موقع پر ہمیں وحدت اور قربانی کا وہ سبق یاد کرنا ہے جو حضرت ابراہیمؑ نے دیا اور یہ سوچنا ہے کہ کس طرح ہم اس قوم کو متحد کر سکتے ہیں اور قومی مقاصد کے لئے قربانی دے سکتے ہیں۔ پاکستان آج اللہ کے فضل و کرم سے خوشحالی کے راستے پر چل نکلا ہے۔ ہم نے اسے منزل تک پہنچانا ہے۔آج ہمارے سامنے یہ سوال ہے کہ کیا ہم پاکستان کے لئے اپنی انا، اپنا مفاد قربان کر سکتے ہیں؟ اس عید کے موقع پر ہمیں پوری قوم کو وحدت کا پیغام دینا ہے۔ہم نے حضرت ابراہیمؑ کی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے،دوسروں کے لئے ایثار کرنا ہے۔ قربانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہم نے خوشی کے اس موقع پر معاشرے کے کمزور طبقات کو فراموش نہیں کرنا۔ ہم نے ان کو اپنی خوشیوں میں شریک کر نا ہے۔ ہمیں ذاتی ، مسلکی ، گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر انتہا پسندانہ رویّوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے اور اپنے جذبہ ایثار و قربانی کا ر±خ ملک و قوم اور ملّتِ اسلامیہ کی ترقی اور یک جہتی کی طرف موڑنا ہے۔ یہی اسلامی تعلیمات کی بنیاد ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم اپنے جذبہ ایثار وقربانی کو صحیح مقاصد کے لیے وقف کر دیں تو پھر وطنِ عزیز میں ہم آہنگی، رواداری، اخوت ، برداشت اور میانہ روی ہمارے روز مرہ معاملات کا حصہ بن جائیں گے۔ پھرہمارا معاشرہ صحیح معنوں میں اسلامی معاشرہ بن جائے گا۔ د±عا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عیدالاضحی کی حقیقی خوشیوں سے ہمکنار فرمائے اور قربانی جیسی عظیم عبادت کو اس کی ر±وح کے مطابق سمجھنے اورادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں ذاتی، مسلکی، گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر انتہا پسندانہ رویّوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ ہمیں خوشی کے موقع پر معاشرے کے کمزور طبقات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ عیدالاضحی حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی اطاعت اور حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی تسلیم و رضا کی یادگار ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے طرزِ عمل سے دنیا کو یہ بتایا کہ قربانی اپنے آپ کو اعلیٰ انسانی مقاصد کے لئے وقف کر دینے کا نام ہے۔ افراد کی قربانی ہی معاشرے اور قوم کو زندہ رکھتی ہے۔ یہی وہ سبق ہے جو قربانی کے ذریعے دیا جاتا ہے۔ عید کے دن ہم کشمیری عوام کی قربانیوں کو بھی فراموش نہیں کر سکتے۔ کشمیری حق خودارادیت کے حصول کے لئے بھارتی جبر کے سامنے اپنی تیسری نسل قربان کر چکے ہیں۔ آج عید کے موقع پر ہمیں وحدت اور قربانی کا وہ سبق یاد کرنا ہے جو حضرت ابراہیمؑ نے دیا یہ سوچنا ہو گا کہ کس طرح ہم اس قوم کو متحد کر سکتے ہیں اور قومی مقاصد کے لئے قربانی دے سکتے ہیں۔ پاکستان آج اللہ کے فضل و کرم سے خوشحالی کے راستے پر چل نکلا ہے۔ ہم نے اسے منزل تک پہنچانا ہے۔ آج ہمارے سامنے یہ سوال ہے کہ کیا ہم پاکستان کے لیے اپنی انا، اپنا مفاد قربان کر سکتے ہیں؟ اس عید کے موقع پر ہمیں پوری قوم کو وحدت کا پیغام دینا ہے۔ ہم نے حضرت ابراہیمؑ کی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے دوسروں کے لیے ایثار کرنا ہے۔ قربانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہم نے خوشی کے اس موقع پر معاشرے کے کمزور طبقات کو فراموش نہیں کرنا۔ ہم نے ان کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنا ہے۔ یہی اسلامی تعلیمات کی بنیاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم اپنے جذبہ ایثار وقربانی کو صحیح مقاصد کے لئے وقف کر دیں تو پھر وطنِ عزیز میں ہم آہنگی، رواداری، اخوت، برداشت اور میانہ روی ہمارے روز مرہ معاملات کا حصہ بن جائیں گے۔
صدر/ وزیراعظم