• news
  • image

مجھ سے تنہا کے مقابل، تیرا لشکر نکلا!

کشمیر کا خطہ اپنی جغرافیائی اور ثقافتی نیرنگیوں کے باعث ماضی کے ہندوستان اور حال کے بھارت کی دیگر ریاستوں سے ہمیشہ ہی سے علیحدہ رہا ہے کشمیری پورے خطے میں اپنی ایک الگ شان و پہچان رکھتے ہیں خواہ وہ کشمیر کی وادی میں رہنے والے کشمیری ہوں، یا صدیوں پہلے امرتسر، لاہور اور جالندھر وغیرہ میں آکر بس جانے والے کاشمیری ہوں، ہجوم سے الگ ہی نظر آتے ہیں کشمیریوں کا رہن سہن‘ ان کی ثقافت‘ان کے کھانے‘ پہناوے اور ان کی دستکاریاں سب ثابت کرتے ہیں کہ کشمیری حیرت انگیز حد تک‘صابر‘ مستقل مزاج اور ایک جفا کش اور محنتی قوم ہے کشمیری شالی ، زیور، لکڑی کی نقاشی، قالین بافی، برتنوں پر نقاشی، ہر فن اپنی جگہ بہت تحمل اور صبر کا متقاضی ہے وہ کشمیری جو ان باریک فنون سے نابلد تھے، روزی کمانے کے لیے وزن اٹھایا کرتے تھے، ظاہر ہے کہ دوسروں کا وزن۔ یہ کشمیری مزدور ’’ہاتو‘‘ کہلاتے تھے ہاتوؤں کے بارے میں ایک بات مشہور تھی کہ یہ وزن کبھی سر پہ نہیں اٹھاتے، اٹھوانے کو جتنا مرضی وزن ہو وہ چوں نہیں کرتے، لیکن سر پہ ایک تنکا بھی نہیں رکھتے‘ سر ہمیشہ بلند رکھتے ہیںکشمیر میں جاری حالیہ کشیدگی کو قریباً دو ماہ ہو گئے ہیں بھارت نے جو خود بھی آزادی کی ایک طویل جدو جہد کے بعد وجود میں آیا ہے مگر کشمیریوں کے ساتھ بھارتیوں نے وہی رویہ رکھا ہوا ہے جو ایک آمر حکومت، آزادی کا نعرہ لگانے والوں کے ساتھ روا رکھتی ہے تاریخ شاہد ہے کہ اس رویے سے آزادی کا راستہ کبھی نہیں رکتا‘ صرف خون بہتا ہے خون جتنا بہتا ہے آزادی کا سورج اتنا ہی تیزرو ہوکر روشن ہی نکلتا ہے بھارت سرکار نے گولی اور لاٹھی کا سہارا لیا 69 برس گزر گئے کچھ حاصل نہ ہوا، کرفیو لگایا، کچھ نہ ملا، مذاکرات کی دعوت دی اور کہا کہ ہمارے دروازے ہی نہیں روشندان بھی مذاکرات کے لیے کھلے ہیں مگر مذاکرات نہیں ہوئے آخر کسی نے سمجھایا کہ کشمیر کی آزادی کی اس جدو جہد کو مذہبی تحریک سے منسلک کر دو، ساری حمایت آن کی آن میں دم توڑ جائے گی کشمیریوں کی آزادی جیسے کل دور تھی اب ابھی دور نظر آتی ہے مثلاً اسی طرح جیسے ایک عام بھارتی پارچہ جلد بن کر بازار میں آجاتا ہے، سادہ فرنیچر چند ہفتے میں تیار ہو جاتا ہے اور عام کھانے، زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے میں پک جاتے ہیں، لیکن ایک کشمیری شال تیار ہونے میں، اخروٹ کی لکڑی پہ کشمیری نقاشی کا ایک بیڈ سیٹ بننے میں اور کشمیری ہریسہ پکنے میں بہت وقت لگتا ہے۔ (بعض شالیں تو ہم نے ایسی دیکھیں کہ پورے پورے موسمِ سرما کی سوزن کاری کا شاہکار تھیں) عین اسی طرح کشمیر کی آزادی بھی نئی دہلی کی ہٹ دھرمی کی وجوہ سے مسلسل تعطل کا شکار چلی آرہی ہے مطلب یہ کہ ہم یوں سمجھ لیں کہ کشمیری نہایت صبر اور تحمل سے اپنی آزادی کا قالین بن رہے ہیں آزادی کی یہ شال، جس پہ حریت کے طلب گاروں کے خون کے شگوفے ہیں، چناروں کے پتے اور لا پتہ ہو جانے والوں کی منتظر آنکھوں کے رتجگے ہیں اس شال کے تانے بانے روتی ہوئی ماؤں کے آنسوؤں اور بوڑھے باپوں کی آہوں سے بنے جا رہے ہیں اس شال کا رنگ سرخ گہرا سرخ اور اس پہ وادی کی برفوں کی سفیدی اور نیلم کی نیلا ہٹیں بکھری ہو ئی ہیں اخبارات کی سرخیاں کہتی ہیں کہ کشمیر پر ناجائز قابض بھارت کا مؤقف کشمیرکی آزادی کے بارے میں غیر واضح اور غیر لچکدار ہے وہ اس وادی کو اپنا’’ اٹوٹ انگ‘‘ سمجھتا ہے حالانکہ اب یہ’’ انگ‘‘ وہ بد نما مسہ بن چکا ہے جو ہر بھارتی فلم میں ولن کے منہ پر ہوتا ہے ہوتا وہ بھی اس کا اٹوٹ انگ ہی ہے اور چونکہ وہ ولن بھی بھارتی ساختہ ہوتا ہے اس لیے اسے اپنے اس اٹوٹ انگ کی بد نمائی کا احساس نہیں ہوتا بھارت ایک بہت بڑا ملک اور کشمیر اس کی نسبت ایک چھوٹی سی وادی ‘ اعدادو شمار اور جنگی کلیوں کے مطابق کشمیری اپنی جنگ اِس صورت میں کیسے اور کیونکر جیت پائیں گے ؟ ظاہر ہے کہ ایک نہتا شخص جس کی پیٹھ پر69 سال کے ریاستی ظلم و جور کا بورا بھی لدا ہوا ہو، دنیا کی سامراجی طاقتیں مثلاً امریکا اور برطانیہ جیسی طاقتیں بھی کشمیر پر بھارتی بوجھ کا سہارا بنی ہوئی ہوں تو ایسی تشویش ناک صورت میں کس طرح کشمیری قوم دنیا کی ایک بڑی اورجدید ہتھیاروں سے لیس فوج سے لڑ پائے گی ؟مگر پھر بھی غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ نہ کشمیر ایک عام خطہ ہے نہ ہی کشمیری ایک عام قوم ‘بھارت سرکار صرف یہ سوچ لے کہ اُس وقت جب پورا ہندوستان جنرل ڈائر کے حکم پہ سر جھکائے گھٹنوں اور کہنیوں کے بل ناک زمیں سے چپکائے رینگ رہا تھا، کشمیری تب بھی اپنا سر بلند رکھ کے ہی صاحب لو گوں کا بوجھ ڈھو رہا تھا آج جب آپ کے پاس انگریز کا چھوڑا ہوا ’’نوآبادیاتی نظام، سوچ اور فوج‘‘ ہے تب بھی، کشمیر یوں کے کندھوں پر ان کی جوان اولادوں کے جنازے تو ہیں، لیکن ان کے سر بلند ہیں وہ آپ کا لادا ہوا بوجھ تو ڈھو لیں گے مگر اپنا سر نہیں جھکائیں گے غور کیجیے، سر کس کا جھکا ہوا ہے؟( متذکرہ بالا یہ مضمون بی بی سی کے شکریہ کے ساتھ یہاں پیش کیا گیا ہے) بھارت کو اور بھارت نواز چند عالمی سرپرستوں کے لئے ایک نوشتہ ِ دیوار راقم کی نظر میں یوں سمجھیں کہ بھارت میں کانگریسی زمانہ ہو یا بی جے پی یا راشٹریہ سیوک سنگھ کا موجودہ وقت اہل ِ کشمیر کا کئی نسلوں سے اُٹھا ہوا یہ سر اگر کل نہیں جھک سکا تھا تو آئندہ بھی کبھی سرنگوں نہیں ہوگا چاہے وائٹ ہاؤس اور پینٹاگان والے اپنے تام جھام لے کر نئی دہلی میں آکر کیوں نہ بیٹھ جائیں کیونکہ اب ’پائیدار سچائیوں ‘ کو تسلیم کرنے کا وقت سروں پر آپہنچا ہے۔

ناصر رضا کاظمی

ناصر رضا کاظمی

epaper

ای پیپر-دی نیشن