• news
  • image

خبیر پختو نخواہ کا تمباکونوشی کیخلاف مجوزہیلتھ ایکٹ

حال ہی میں خیبر پختونخواہ صوبے نے مہم شروع کی ہے جس میں تمباکو نوشی کے خلاف ہیلتھ ایکٹ 2016کی منظوری شامل ہے۔ یہ قانون سازی انتہائی اہمیت کی حامل ہے لیکن اسکی منظوری سے قبل اس پہ زبردست غور وخوض کی ضرورت ہے۔ یہ نہ ہو کہ نئے قانون کی حیثیت بھی ان 30سے زائد قوانین کی ہو جو اس ملک میں پہلے ہی سے انسداد تمباکو نوشی کی خاطر منظور کئے گئے تھے لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ نئے قانون متعارف کرانے سے قبل پرانے قوانین کا نفاذ لازمی ہے کیونکہ تمباکو کی صنعت کا پاکستان کی معیشت کا دوسرا سب سے بڑا مارکیٹ شیئر ہے۔ مجوزہ تمباکو کنٹرول ایکٹ2016 میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ عوامی مقامات پہ تمبا کو ذخیرہ کرنا، فروخت کرنا اور استعمال کرنامنع ہے۔ حد تو یہ ہے کہ گھروں کی چھت اور لان میں بھی تمباکو نوشی پہ پابندی لاگو کرنے کا احتمال ہے۔ اس قانون کا مسودہ تیار کرنے میں جلد بازی سے کام لیا گیا اور قانون ساز یہ بھول گئے کہ تمباکو کی صنعت میں ایک اہم اسٹیک ہولڈر وہ کسان بھی ہے جو محنت سے تمباکو کی فصل تیار کر رہا ہے اور اس کی گذر اوقات ان کھیتوں سے ہوتی ہے جن میں تمباکو کے پودے اگتے ہیں۔قانون میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ اس کا اطلاق ہر اس شخص پہ ہے جو تمباکو کی مصنوعات تیار کر رہا ہے، انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر رہا ہے یا محض سگریٹ کا ایک پیکٹ جیب میں لے کر گھوم رہا ہے۔ ا کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ایکٹ میں تمباکو اور تمباکو نوشی کے درمیان تفریق کو واضح نہیں کیا گیا جبکہ تمباکو کی فصل تیار کرنے والا کسان اس ایکٹ کو اپنی روزی پہ حملہ تصور کرتا ہے۔صوبہ خیبر پختونخواہ کے تمباکو کی ممانعت اور تمباکو نوشی سے تحفظ کے ایکٹ کو اس وقت پیش کیا گیا جبکہ پہلے ہی وفاقی عدالت میں اس کے خلاف اپیل موجود ہے۔ ایکٹ کے مطابق حکومت کسی بھی شخص کو مجاز اتھارٹی عطا کر سکتی ہے کہ وہ اس پہ عمل درآمد یقینی بنائے خواہ وہ کسی عوامی مقام کا رکھوالا ہی کیوں نہ ہو اس پہ لازم ہو گاکہ وہ اپنے احاطے میں تمباکو نوشی پہ ممانعت لاگو رکھے۔ قانونی ماہرین اس نئے مجوزہ ایکٹ پہ اس وقت سے تنقید کر رہے ہیں جب سے یہ بل پیش کیا گیا تھا کیونکہ انکی رائے میں یہ ایکٹ 2002کے ہیلتھ آرڈیننس برائے تمباکو کے استعمال نہ کرنیوالے افراد کے تحفظ کیخلاف ہے۔ یہ ہیلتھ آرڈیننس وفاق نے لاگو کیا اور اس ادارے نے کیا جو مرکزی گورننگ باڈی کا منبع ہے۔ ماہرین قانون اس ایکٹ سے متعلق اپنے تجزیئے میں کہتے ہیں کہ یہ خاکہ ملک کے مکمل تمباکو کے لینڈ اسکیپ کو مدنظر رکھے بغیر تیا ر کیا گیا۔ اس قانون کے مطا بق کسی بھی تعلیمی ادارے کے 50میٹر کی حد میں تمباکو کے فروخت پہ پابندی کے دائرے کو وسیع کرکے 100میٹرکر دیا گیا جب کہ معاملہ پہلے ہی عدالت میں ہے۔ سپریم کورٹ نے پہلے ہی شیشہ کے استعمال کے خلاف سئو موٹو ایکشن لیا ہے جبکہ خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت اسے نظر اندازکرتے ہوئے مختلف سمت کا رخ کر رہی ہے۔نئے مجوزہ قانون پہ بحث، مباحثہ اور تنقیدی جائزے کے بغیر اس کا اطلاق مشکوک ہو جائے گا ۔ عوام کی نظر میںقانون کی ساکھ کو بر قرار رکھنے کی خاطر پرانے قوانین کا نفاذ لازمی ہے۔ سستی شہرت حاصل کرنے کی خاطر جلد بازی میں وضع کئے گئے قوانین پیش کرنا خود صوبائی حکومت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا جبکہ کھلے عام پرانے قوانین کی نافرمانی جاری ہے۔قابل اطلاق ڈیوٹی کی چوری ہو رہی ہے، غیر قانونی سگریٹ اسمگل کئے جا رہے ہیں اور کھلے عام فروخت بھی ہو رہے ہیں جن کی وجہ سے حکومت پاکستان کو کم از کم20ارب روپوں کا سالانہ نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔علاوہ ازیں خیبر پختونخواہ کے 75,000 کسان جو تمباکو کی کاشت کرتے ہیں۔، حراساں ہیں اور سختی سے اس مجوزہ قانون کے خلاف۔ کسانوں کی انجمن کے ترجمان کیمطابق 75000 کسانوں کے علاوہ مجوزہ بل کے اطلاق سے انکے خاندان کے 240,000 افراد متاثر ہوں گے۔ پاکستان زرعی فورم کے مطابق تمباکو خیبر پختونخواہ کی اہم فصل ہے جس سے نقد آمدن حاصل ہو تی ہے پاکستان کی یہ واحد فصل ہے جس کی پیداوار عالمی پیداوار سے 13فیصد زیادہ ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق ان کسانوں کو تمباکو کی کاشت ترک کر نا جہاں قومی پیداوار عالمی پیداوار کی شرح سے بھی زیادہ ہے ، معقول اقتصادی قدم نہیں۔ انہی اقتصادی ماہرین کی رائے سے تمباکو کی کاشت کرنے والوں کی کیس اسٹڈی کے ذریعہ وہ طریقے اپنائے جا سکتے ہیں جو تمباکو کی کاشت کو سود مند بناتے ہیں اور ان طریقوں کو گندم، چاول، کماد، کپاس وغیرہ کی کاشت کے طریقوں پہ استعمال کر کے ان فصلوں سے زیادہ شرح پیداوار حاصل ہو سکتی ہے تا کہ تمباکو کے کاشت کا ر بتدریج تمباکو کی فصل اگانے کو تر ک کر کے دوسرے اہم منصوبوں کی جانب راغب ہو سکیں۔ ایک زمانہ تھا کہ تمباکو کے کاشت کاروں کی خصوصی تربیت کی گئی تھی کہ وہ زمین سے زیادہ پیداوار حاصل کریں۔ اب ان سے کہا جائے کہ اچانک وہ تربیت بھلا کر تمباکو کی کاشت روک دیں تو سرا سر زیادتی ہو گی۔ان کسانوں کو نئے سرے سے تربیت دینی ہو گی اور مناسب آبپاشی کا نظام فراہم کرنا ہو گا تا کہ آف سیزن فصلوں سے بھی مناسب فائدہ حاصل کریں۔
صو بہ خبیر پختوا نخواء ملک میں تمباکو کی مانگ کا 77فیصد حصہ فراہم کررہا ہے۔ پشاور کے محکمہ زراعت کو بھی سنجیدگی سے مجوزہ قانون کے اطلاق کے اثرات کا جائزہ لینا چاہتے۔ صوبے کے کسانوں کو خد شہ ہے کہ تمباکو نوشی پہ کنٹرول زیادہ ضروری ہے۔ اگر صوبے میں تمباکو کی کاشت بندکردی گئی لیکن سگر یٹ نوشوں کی مانگ برقرار رہی تو ایران ،افغانستان اور مشرق وسطیٰ سے تمباکو کی اشیاء اسمگلنگ کے ذریعہ ملک میں داخل ہوتی رہیں گی لیکن بے چار ے کسانوں کا ذریعہ آمدن ختم ہوجائیگا۔

سلطان محمود حالی

سلطان محمود حالی

epaper

ای پیپر-دی نیشن