• news
  • image

مسلم حکمرانو! عوام سے انصاف کرو

’’امام کعبہ‘‘… بہت بڑا رتبہ ہے… ’’اللہ تعالیٰ‘‘ کے گھر کا امام… خاص نصیب کی عطاء بہت بڑی فضیلت ہے۔ کوئی چھوٹی بات نہیں، نہ مقام نہ منہ سے ادا ہوئے کلمات… ہر دور کی بہت اہمیت ہے۔ حج کو ’’اللہ تعالیٰ‘‘ کے نزدیک بیحد مقبول و محبوب عبادت کا درجہ حاصل ہے۔ وہ لوگ جو حج پرنہیں جاسکتے یا بوجہ مصروفیت نہ جا پائیں۔ وہ مناسک حج اور خطبہ کو نہایت ذوق و شوق دیکھئے۔پہلی مرتبہ مناظر دیکھئے کہ ٹھنڈے پانی کی بوتلوں میں سوراخ کر کے پانی کی پھوار ہر گزرتے ’’حاجی‘‘ پر کرتے ہوئے۔ دوسری ٹیم ’’گتے‘‘ سے پنکھوں کا کام لے رہی تھی۔ کھلا میدان سر پر سورج، سخت کھردرے پہاڑ، کمل تالیف ممکن نہ تھی مگر ’’41 ڈگری‘‘ میں پانی کی پھوار اور پنکھوں سے ہوا زندگی کی نوید سے کم نہ تھی۔ قانون نافذ کرنے والوں کی خوشی اخلاقی بھی ظاہر تھی۔ مسکرا کر راستہ بتا رہے تھے تو کوئی کسی بوڑھے حاجی کی وہیل چیئر چلا رہا تھا… پورے حج منظر پر خوش اخلاقی، نرمی ’’اللہ تعالیٰ‘‘ کے مہمانوں کی ہر ممکن مدد کا جذبہ موجزن تھا… جب سے ’’عالم اسلام‘‘ سازش گیم کا نشانہ بنا ہے حالات بہت دگرگوں ہوچکے ہیں۔ اس لئے کئی برسوں سے ’’خطبہ حج‘‘ کی اہمیت بھی بڑھ چکی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ ’’اسلامی آئین‘‘ ہے۔ ہر خطبہ کو سال بھر کے لئے نافذ ہونا چاہئے۔ موجودہ خطبہ اس سال کا معتدل، متوازن، دلوں کو جھنجھوڑتے ہوئے الفاظ کا مرکب تھا۔ امام کعبہ نے حج کے بہترین انتظامات کو سراہتے ہوئے، ’’کنگ شاہ سلمان‘‘ کی حفاظت کی دعا فرماتے ہوئے واضح کردیا کہ ’’حرمین شریفن‘‘ کے تحفظ، سلامتی کی ذمہ داری کلیتا ’’سعودی عرب‘‘ کی ہے۔ ہمارے نزدیک یہی قرین انصاف ہے۔ جس مملکت کی حدود میں ’’مقامات مقدسہ‘‘ ہیں۔ وہی ریاست اس کے معاملات چلانے کی ’’واحد اتھارٹی‘‘ ہے… ’’امام کعبہ‘‘ نے انتشار پھیلاتے مسائل کے حل کے لئے مسلم حکمرانوں کو حکمت اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ باہمی مسائل کو مشاورت سے طے کریں۔ ساتھ ہی ’’امت مسلمہ‘‘ کو ہدایت فرمائی کہ وہ دوسروں کی طرف دیکھنے کی بجائے متحد ہو کر اپنے تمام معاملات خود کے ہاتھوں میں رکھے… موجودہ حالات کے تناظر میں یہ نصیحت ضائع کرنے والی نہیں… اگر ’’امہ‘‘ متحدہ رہتی تو نہ سازشوں سے بکھرتی، نہ اڑتے طیاروں سے قیمہ بنتی… ’’شام سے لیکر افغانستان‘‘ تک، معاملات اغیار کے حوالے کرنے کا رد عمل ہے۔ ’’امام کعبہ‘‘ نے مسلم امہ کے مصائب کا حل تجویز کیا وہاں لاوا بنتے مرض کی 100 فیصد درست تشخیص کرتے ہوئے ’’حکمرانو‘‘ سے کہا کہ وہ عوام کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آئیں، زبردست الفاظ تھے، مسلم حکمران جان لیں وہ عوام کے ساتھ انصاف، انصاف، انصاف کریں۔ سونے کے پانی سے لکھے جانے والے حروف… ظلم کو ختم کرو۔ بلاشبہ مسلم حکمران عوام کے دکھ، پریشانیاں ختم کرنے کے زیادہ ذمہ دار ہیں… کیا، ہم، آپ سے کچھ پوشیدہ ہے۔ اپنے ہاتھوں سے لگائے ترقی کے اعلیٰ معیارات کا رخ اندھیری کوٹھڑی کی طرف موڑنے والے حکمران کوئی اور نہیں، مسلمان ہیں… عراق، شام پاکستان میں عوام کا جوحال ہے۔ حکمران موج مستی میں ہیں۔ خود اپنے عوام سے جنگ کرتے حکمران، کیا انصاف دے سکتے ہیں مسلم امہ قرون وسطحی کی یادگار، کوئی ایک ملک، کوئی ایک لیڈر جو مسائل کو بات چیت سے حل کرنے کا خواہاں ہو۔ ہم سے تو ’’ہالینڈ کا کارکن اسمبلی‘‘ بہتر ہے جو اسرائیلی وزیراعظم سے ہاتھ ملانے سے انکار کردیتا ہے فلسطینوں پر مظالم کے خلاف احتجاج تو ریکارڈ کروا دیتا ہے، یہاں تو ہر شخص اپنی عدالت لگائے بیٹھا ہے۔ ذراسی بات پر جھٹ سے کفر کا فتویٰ جاری کرنیوالی ’’مسلم امہ‘‘ جو دین کہتا ہے کہ تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں۔ ہم اسی ’’دین مبین‘‘ کے ماننے والے ہیں ضرور اپنی ذات سے بھی وفادار نہیں۔ اس لئے تو امت ایک دشوار گھاٹی میں پھنسی ہوئی ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ کریم‘‘ سے ’’مسلمان قیادت‘‘ کیلئے ہدایت کی دعا فرماتے ہوئے کہا کہ ہمیں باطل نہیں سچے لوگوں کا ساتھ دینا چاہئے… ’’قارئین‘‘… ہر تقریر، تقریب کا ایک نچوڑ ہوتا ہے یہ ’’خطبہ حج‘‘ کا نچوڑ تھا اور اسی نچوڑ کا سب سے روشن نکتہ ’’علماء کرام‘‘ کو نصیحت تھی حج کا سب سے اہم پیغام امت میں تفرقہ نہ ڈالنے اور لوگوں کے ساتھ نرمی، خوش مزاجی سے کام لینے کا مشورہ… فتنے، دہشت گردی کی طرف مائل ہوتے نوجوان، موجودہ سخت حالات کے ذمہ دار علمائ، ہی ہیں… ’’علماء اور علمائے دین‘‘ میں بہت بڑا نمایاں فرق ہے، انبیاء کے وارثین اپنے منصب، دین کی تعلیمات کے تقاضوں سے منسلک رہتے تو آج مشرق وسطیٰ، مقبوضہ کشمیر دردو غم کے کھنڈرات بنے نظر نہ آتے… زندگی کے ہر طبقہ فکر کو اس کے حقوق کے ساتھ فرائض یاد دلاتے ہوئے ’’میڈیا‘‘ کو اسلام کا بنیادی، روشن پیغام دنیا تک پہنچانے کی ذمہ داری عائد فرمائی…
’’6 ستمبر‘‘ ایک یادگار دن، یوم فتح، عظیم الشان تقریب، ’’خطبہ حج‘‘ لاکھوں کے مجمع میں پڑھا گیا اور یہاں ہزاروں کا مجمع تھا جب پاک آرمی کے ’’سالار اعلیٰ‘‘ نے خطاب کیا… ہر سال کی طرح معمول کی ایک تقریب مگر خاص نکات، خاص پیغام کہ علمائ، دانشور، میڈیا کواسلام کے پر امن، ہمہ گیر پیغام کو پھیلانا ہوگا۔ انتہا پسندی، منفی سوچ کے خاتمہ کے لئے… پاکستان ایک نظریاتی مملکت، عالم اسلامی کی پہلی ایٹمی قوت، سعودی عرب عالم اسلام کا واحد، مقدس روحانی مرکز، کتنا حسین اتفاق، خطابات کا امتزاج جہاں شک نہیں کہ مسلم ممالک کو بد ترین عہد کا سامنا ہے وہاں اس امر میں بھی کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہمارے تمام مسائل کا حل اسلامی، شرعی نظام کے نفاذ میں ہے… یہ کسی ایک ملک، قوم کے دکھوں کا نہیں بلکہ پوری ’’امہ‘‘ کے مصائب کا شافی حل ہے مگر کاغذوں میں نہیں عملاً۔
آج امام کعبہ ’’جب فرماتے ہیں کہ عدل و انصاف، اسلام کے سرکا تاج‘‘ ہے ، تو کس کو کوئی شک ہے؟ سچ فرمایا… سو فیصد سچ کہ ’’حکمرانو… ظلم کو ختم کرو… عوام سے انصاف کرو…

epaper

ای پیپر-دی نیشن