اسلام ترا دیس ہے، تو مصطفوی ہے
بہت چرچا ہے مغربی دنیا میں انسانیت نوازی کا اور ایک اودھم مچایا ہوا ہے ان کے اہل دانش نے پھر اس خواہش کو پوری دنیا پر مسلط کیا جانا بھی ان کے نزدیک ضروری ہے انکے افکار کو الہام کا درجہ دیا جائے۔ ان کی سوچوں کو اتنی پذیرائی ملنی چاہئے کہ دنیا کا ہر فرد ان کی سوچوں کو اپنے جذبات پرغالب کردے، آج کا نیو ورلڈ آرڈز یہی ہے کہ ہر جگہ ہر وقت خود پرستی کا انقلاب برآمد کیا جائے اس انقلاب کی تکمیل کیلئے دنیا بھر کے مختلف خطوں میں مکرو جبر کو کامیابی کا رستہ بنایا جانا بھی نیو ورلڈ آرڈر کاحصہ ہے۔ اس ظالم ورلڈ آرڈر نے دنیا بھر کے مختلف خطوں میں نئی طرز کی شورشیں برپا کی ہیں، حیات کے نام پر ظلم کو فروغ دیا گیا ہے اور مظلومیت کی کئی نئی دنیائیں وجود میں آئی ہیں۔ پھر کہا جاتا ہے کہ دنیا کے بہترین دماغ اس طرز کے انقلاب کے پس پشت ہوتے ہیں۔ لیکن فی الحقیقت دنیا کے اعلیٰ ترین شرارت پسند اور آزاد پرست دماغ ایسی طرز حیات کے موجد ہوتے ہیں۔بہت غور سے پوری دنیا کے سیاسی اور معاشی احوال کیساتھ ساتھ عسکری رویوں کا جائزہ لینے کے بعد ایک واضح ترین فیصلہ کن سوچ جنم لیتی ہے کہ آج کی جدید دنیا کا تازہ ترین مسلسل فساد محض اورمحض مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کیلئے برپا کیاگیا۔ مغرب کے اہل دانش دنیا میں مذہبی رویوں کا جائزہ لینے کے بعد معاشرتی اقدار اور ان کی وسعت پذیری کے پیمانے طے کرتے ہیں۔فرعون صفت اہل اقتدار کے نزدیک کوئی بھی پر امن اور آزادی پسند مذہب ہمیشہ ہی خطرہ رہتاہے۔ عام طور پر لوگ پر امن سے مراد بزدل طبقہ لیا کرتے ہیں اور آزادی پسند سے مراد باغی لیا کرتے ہیں۔ حالانکہ امن و آزادی انسان کا بنیادی حق ہے اور وہ آزادی افکار اور حریت احوال ہی میں اپنے انسانی مقاصد تخلیق کی تکمیل کرتا ہے۔ پوری تاریخ انسانیت میں جب کبھی انسانوں کو جبری اطاعت اور مکری غلامی پر مجبور کیا گیا ہے تو مزاحمت اور جدوجہد کے راستے کھلتے ہیں۔ برصغیر پاک ہند میں بہت ہی قدیم وقتوں میں نووارد آریہ قوم نے اپنے جبر و مکر سے توسیع پسندانہ اقدامات کرتے ہوئے۔ یہاں کے مقامی باشندوں کو نہایت نامعقول انداز میں تقسیم کرکے رکھ دیا، اور مذہبی اجارہ داری کو پوری قوت سے دیگر طبقات پر اس طریقے سے مسلط کیا ہے کہ آخری درجے کے انسان حیوانوں سے بھی بدتر ہوگئے۔ مثلاً اگر ایک پنڈت سنسکرت کے الفاظ باآواز بلند پڑھتا ہے اور وہاں پر ایک شودر اپنے کتے سمیت موجود تھے تو کتے پر کوئی سزا نہیں البتہ شودر کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر انڈیلا جاتا تھا کہ اس نے سنسکرت مقدس زبان کے الفاظ کیوں سنے۔ ایک طویل داستان ہے کہ جو مذہب و معاشرت کے نام پر بھارت کی انسان دشمن ثقافت کا پتہ دیتی ہے۔برصغیر میں اسلام کی آمد کا راستہ سندھ تھا۔ محمد بن قاسم کے حملے سے پہلے یہاںپر مسلمان مبلغ پہنچ چکے تھے اورکمزور ترین طبقوں نے ان مبلغین کی انسان دوست شخصیت سے متاثر ہو کر اسلام کو اپنے خیالات وجذبات میں بخوشی سمو لیاتھا۔ لیکن ہندوستان کے فرعون صفت حکمران اپنے روایتی مذہب بردار پشتیانوں کی مدد سے کسی بھی ایسے طبقے کو ناپسند کرتے تھے جو عام لوگوں کی آزادی اور عزت نفس کو انسانی زندگی کا بنیادی تقاضہ قرار دے۔ مسلمان مبلغین چونکہ صوفیا و کرام تھے۔ ود کروفر اورتفریق طبقہ سے یکسر دور تھے اسلئے وہ اہل ہند میں سے پسماندہ لوگوں کو اپنے قریب کرتے تھے۔ انکی معاشرت سے نفرت نہیں کرتے تھے۔ انکے دکھ سکھ میں شریک ہوتے تھے اور آہستہ آہستہ انکے جذبات و خیالات کو حقیقی انسانی امتیازات سے روشناس کراتے تھے۔ہندوستانی معاشرے میں ظالم و مظلوم کے دو علیحدہ طبقے واضح طورپر موجود ہیں ہر طبقے میں یہ علیحدہ علیحدہ قومیں تھیں قوم کا تصور دھرتی سے وابستہ تھا۔ لیکن اسلام میں قوم کا تصور اعلیٰ انسانی اخلاقی خیالات سے وجود میں آتا ہے۔ اور اخلاق کی تربیت کا اصل تصور اوربنیادی مآخذ وحی الٰہی ہے، جس کا مرکز رسول آخرالزماںؐ کی ذات معصوم ہے، جس ذات معصوم میں اعلیٰ ترین انسانی صفات کو جمع کردیا گیا ہے اور قومیت کے کسی بھی تصور کیلئے اسلام میں بنیاد ی شرط ہے اپنے خالق حقیقی کی معرفت بذریعہ نبوت اوراپنے احوال میں فکری و عملی غلبہ کیلئے سیرت رسولؐ سے تعلق واتباع اور یہ شرط تمام ارکان دین کی بنیاد ہے۔ جسے ہم کلمہ طیبہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ کلمہ طیبہ کمزور اور بے یقین انسانوں کو قوت و رفعت کا راستہ دکھاتا اور فرعون و قارونی جبروئیت سے آزادی دلوانا ہے۔ ماضی کا ہندستان اورعصر جدید کا مغرب اپنے تصور قومیت میں انسانیت بیزار تصورات کو گنجائش دیتا ہے۔قائداعظم کا قومی شناخت اور اسباب آزادی کے بارے میں واضح تقاریر کا تاریخی ریکارڈ موجود ہے۔ جن میں وہ اسلامی انسانیت پرور رویوں اور ہندو استبداد کی زیادتیوں کے علاوہ ان کے لیڈروں کی مکارانہ چالوں کا ذکر کرتے ہیں۔آج کے نام نہاد مسلمان بزعم خویش دانشور دوقومی نظریے کو جذباتی اور تنگ نظریت کا طعنہ دیتے دیتے یہ بھول جاتے ہیں کہ آج کا تازہ ترین بھارتی سیکولر رویہ مسلمانوں اور ہندوئوں کیلئے دو علیحدہ علیحدہ معیار کیوں رکھتا ہے۔ کشمیر میں تازہ گھنائونی انسانیت سوزہر قاتلانہ ہندو فرعونیت کے کس رویے کی غمازی کرتی ہے؟ ہندو انتہا پسندوں کی تنظیموں کو بھارتی سرکار کی مکمل سرپرستی کو کس قانون کی اجازت حاصل ہے۔