پنجاب سب سے آگے کیوں؟
حال ہی میں پاکستان میں گڈ گورننس اور شعبہءتعلیم کی ترقی کیلئے کیے گئے اقدامات اور انکے نتائج کے حوالے سے دو اہم لیکن غیر جانبداراداروں نے تحقیقی رپورٹیں شائع کیں۔ ان رپورٹوں کے مطابق پنجاب ملک بھر میں سب سے آگے نظر آتا ہے۔ بلا شبہ یہ رپورٹیں جہاں پنجاب کیلئے ایک اعزاز اور اعتراف کا ثبوت ہیں وہیں اس حقیقت کی طرف اشارہ بھی کرتی ہیں کہ پنجاب کی انتظامی قیادت اور مشینری عوام کی خدمت کیلئے سب سے زیادہ محنت کر رہی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان رپورٹوں نے اس حقیقت کو بھی آشکار کر دیا ہے کہ گڈ گورننس اور تعلیم کی ترقی کیلئے بلند بانگ نعرے کس نے لگائے اور عملی قدامات کس نے کیے؟بہر حال جب ہم ان وجوہات کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کی بنیاد پر پنجاب کی کارکردگی بہتر رہی تو سب سے پہلی نظرخادمِ پنجاب محمد شہباز شریف کی طرف جاتی ہے جو اسکی حکومت کے سربراہ ہیں اورہمہ وقت میدان ِ عمل میں سرگرم عمل نظر آتے ہیں۔جو نہ خود آرام کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے افسروں کو آرام کرنے دیتے ہیں۔ تاہم اس سمت میں ایک اور بڑی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے پنجاب میں جدید ٹیکنالوجی کو حکومتی امور کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کیلئے ذاتی دلچسپی لی۔ انہوں نے نہ صرف جدید ٹیکنالوجی کی بھر پور حوصلہ افزائی کی بلکہ اس مقصد کیلئے عالمی سطح کے کمپیوٹرسائنسدان ڈاکٹر عمر سیف کوپنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کا سربراہ بنایا اور انہیں فری ہینڈ دیا جنہوں نے محض پانچ سال کی مدت میں پنجاب کے مختلف محکموں میںآئی ٹی پر مبنی236سے زائد منصوبے شروع کیے اور انکی کامیابی کیلئے دن رات محنت کی۔یہ آئی ٹی کے منصوبوں کے شاندار نتائج کا صلہ ہے کہ پنجاب کی شہرت ملک سے نکل کر عالمی سطح پر پہنچ گئی ہے۔پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ وائٹ ہاﺅس کی جانب سے پاکستان کو گلوبل انٹرپریونرشپ کانفرنس2016میں شرکت کی دعوت دی۔یہ پنجاب کا ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ صرف یہی نہیں، رشوت ستانی کے خاتمے کیلئے شروع کیے گئے پنجاب کے سٹیزن فیڈ بیک سسٹم کو یورپ کے ممالک البانیہ اور رومانیہ بھی اپنا رہے ہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہے جدید ٹیکنالوجی کس طرح پنجاب کے عوام کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لا رہی ہے، کس طرح پنجاب کے سکولوں میں اساتذہ اور طلبہ کی حاضری میں اضافہ ہوا، کس طرح ڈینگی جیسے موذی مرض پر مختصر وقت میں قابو پایا گیا او ر کس طرح دور دراز گاﺅں میں بیٹھا ایک عام کسان براہِ راست وزیر اعلیٰ کو پٹواری کیخلاف شکائت درج کرا سکتا ہے؟ یہ اور اس طرح کے دیگر کئی اقدامات ہیں جن کی بدولت پنجاب سب سے آگے نظر آتا ہے۔ اگر ہم شعبہءتعلیم کیلئے کیے گئے اقدامات کا جائزہ لیں تو پنجاب کو یہ اعزاز بھی جاتا ہے کہ اس نے 53ہزارکے قریب سرکاری سکولوں کی سمارٹ مانیٹرنگ کا ڈیٹا اوپن کر دیا۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے سکولوں کی مانیٹرنگ کا جامع منصوبہ شروع کیا تھا جس کیلئے ملٹری کے ریٹائرڈ ملازمین بھرتی کیے گئے لیکن بوجوہ اسکے مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہو سکے۔ پنجاب آئی ٹی بورڈ نے وزیراعلیٰ کی خواہش پر اس کی بہتری کا بیڑا اٹھایا اور مانیٹرنگ پر مامور سٹاف کو ٹیبلٹ فراہم کئے جن کی مدد سے وہ اپنے دوروں کی تفصیل بلاتاخیر مرکزی نظام کو انٹرنیٹ کے ذریعے بھجوا دیتے ہیں۔قبل ازیں ایک سکول کی مانیٹرنگ کا فارم پُر کرنے پر تین گھنٹے صرف ہوتے تھے لیکن اب وہی کام چند منٹ میں ہو جاتا ہے۔اس نظام کی بدولت اساتذہ کی حاضری 93 فیصد اور طلبہ کی حاضری92فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح مانیٹرنگ کے دوروں میں 95 فیصد تک بہتری آئی ہے۔اس نظام نے فرضی دوروں اور رپورٹوں کا دروازہ بند کر دیا۔تعلیمی نظام کی بہتری کیلئے ایک اور پروگرام لٹریسی اینڈ نیومریسی ڈرائیو( LND) شروع کیا گیا ہے جس کے تحت مانیٹرنگ سٹاف کو دیے گئے ٹیبلٹ میں ریاضی، سائنس اور انگریزی کے سوالات فیڈ کیے گئے ہیں۔ مانیٹرنگ سٹاف بچوں سے وہ سوالات پوچھتے ہیں اور انکے جوابات سسٹم میں ڈال دیتے ہیں۔ اس طرح اساتذہ کی کارکردگی اور بچوں کی تعلیمی استعداد جانچنے کیلئے فول پروف ڈیٹا میسر آتا ہے اور ہر سکول کی کارکردگی اعلیٰ حکام کے سامنے آ جاتی ہے۔ اس طرح انہیں مستقبل کی پالیسیاں وضع کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔تعلیم کی بہتری کیلئے پنجاب آئی ٹی بورڈ نے ایک اور منصوبہ پنجاب ای۔لرننگ کے نام سے شروع کیا ہوا ہے۔ اس نظام کے تحت چھٹی تا دہم جماعت تک سرکاری سکولوں کی نصابی کتب ریاضی اور سائنس کو ڈیجیٹل بناکر بچوں کیلئے زیادہ آسان اور دلچسپ کیا جا رہا ہے۔ مشکل موضوعات کو متحرک اور تصویری معاونت فراہم کی گئی ہے۔ اب تک 20 نصابی،10ٹیچرز گائیڈزاور کہانیوں کی 30 کتب کو آن لائن فراہم کیا جاچکا ہے۔اس پروگرام کو مزید موثر بنانے کیلئے اساتذہ کو ٹیبلٹ کمپیوٹر فراہم کیے جائینگے جن کی مدد سے وہ بچوں کو پڑھایا کرینگے۔ مزید برآں کالجوں میں آن لائن ایڈمشن، امتحانی نظام اور طلبہ و طالبات کو بس کارڈ کی فراہمی کا نظام بھی کمپیوٹرائز کر دیا گیا ہے جس سے کام کی رفتار اور شفافیت میں کافی بہتری آئی ہے۔گڈ گورننس اور عوامی خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کیلئے بھی آئی ٹی کی مدد سے متعدد منصوبے کام کر رہے ہیں۔ جن میں سے سٹیزن فیڈ بیک مانیٹرنگ پروگرام کی افادیت اور کامیابی سے متاثر ہو کر عالمی بنک نے انہیں یورپی ممالک البانیہ اور رومانیہ میں بھی رائج کیا ہے۔یہ پروگرام سرکاری محکموں میں پائی جانے والی کرپشن اور بداخلاقی کا خاتمہ کر نے کے ساتھ ساتھ شہریوں کو فراہم کی جانے والی سہولتوں کے معیار میں بھی بہتری لا رہا ہے۔ اسی لیے آغاز میں ان محکموں میں شروع کیا گیا ہے جہاں رشوت ستانی کی شرح زیادہ ہے۔شہریوں کی شکایات کے ازالے کیلئے ”ذمہ دار شہری “ اور دیگر ہیلپ لائینیں شروع کی گئی ہیں جہاںضلعی حکومتوں سے متعلقہ خدمات مثلاً گرانفروشی، ناپ تول میں کمی، غیر معیاری اشیاءکی فروخت سے متعلق شکایات کےلئے کوئی بھی شہری 0800-02345 پر کال کر سکتا ہے۔اسکی شکائت خودکار نظام کے تحت ڈی سی او یا دیگر مجاز حکام کے پاس پہنچ جاتی ہے جو اس پر بروقت کارروائی کرتے ہیں۔
یہ اور دیگر متعدد اقدامات ہیں جن کی بدولت پنجاب حکومت کے نظم نسق میں شفافیت کو فروغ مل رہا ہے اور محکموں کی کارکردگی بہتری کی طرف گامزن ہے جس کا اعتراف غیر جانبدار تحقیقی جائزوں اور رپورٹوں میں بھی نظر آتا ہے۔