• news
  • image

تعلیمی زوال اور ڈگریوں کی بھرمار!

ایک وقت ایسا بھی تھا وہ بچہ جو انتہائی ذہین اور محنتی ہوتا مگر غربت کا مارا ہوا ہوتا، لیکن اللہ کے فضل سے اپنی محنت کے بل بوتے پر وہ ڈاکٹر بھی بن جاتا یا انجینئر۔ یقین کریں وہ ٹیوشن بھی نہیں جاتا تھا بلکہ اس وقت اکیڈمیوں ٹیوشن سنٹرز کا کاروبار بھی نہیں تھا۔ آج صورت حال مکمل تبدیل ہوچکی ہے۔ اگرآپ خوب مال دار ہیں اور بچہ بھی نالائق ہے پھر بھی آپ کا بچہ ڈاکٹرایم بی بی ایس بن جائے گا۔ صرف یہی نہیںاگر آپ کچھ زیادہ ہی ’’مال دار‘‘ ہیں توآپ میڈیکل کالج بھی بنا سکتے ہیں۔ بس ایک کرائے کی بلڈنگ لے لیں۔ ہائر ایجوکیشن کمشن (H.E.C) والوں کی مٹھی خوب گرم کریں آپ کا کالج شروع ہوجائے گا۔ پھر ہر بچے سے 40 سے 50 لاکھ پانچ سال کی فیس وصول کریں اور ڈگریاں بانٹیں، یہ تعلیمی زوال نہیں توکیا ہے؟ ایک طرف ہزار نمبر لینے والا بچہ انٹری ٹیسٹ پاس نہیں کر پاتا وہ داخلے سے محروم رہتا ہے۔ دوسری طرف 600 نمبر والا بچہ دولت کے بل بوتے پر ڈگری لے لیتا ہے۔ یونیورسٹیاں بہت کھل گئی ہیں۔ انہوں نے بھی کہیں مال اکٹھا کرنا ہے ۔ بغیردیکھے دیگر کالجزکو ڈگریاں بانٹنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ ڈگری ہولڈر بہت مل جائیں گے مگر تعلیم یافتہ کوئی نہیں، لاء کالجزکی بھی یہی صورت حال ہے وکلاء دھڑا دھڑ منظرعام پر آ رہے ہیں۔ چنددن قبل ہائی کورٹ نے ان لاء کالج کی فہرست مانگی ہے جو گیراجوں اور ایک کمرے میں کھولے گئے ہیں۔ ایک زمانے میں Bed اور Med کیلئے ایڈمیشن لینا پڑتا تھا۔ جو استاد کی تربیت سے ملتا تھا۔ محض کتاب نہیں۔ اب Bed اور Med ہر بچہ آسانی سے کرلیتا ہے۔ آپ جس شہر میں قیام پذیر ہیں کئی پرائیویٹ اداروں کا دیگر جامعات سے الحاق ہے بس ایک سال کی کم ازکم چالیس ہزار تک فیس آپ نے دینی ہے کالج جانے کی ضرورت نہیں ایک گائیڈ سے تمام مضامین کی آپ کو سہولت مل جائے گی۔ اس کالج میں امتحانی سنٹر ہو گا امتحان دینے والے بھی انہی کے لوگ ہوں گے بس ڈگری مل جائے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ Bed اور Med کا مطلب بھی آپ کو نہ آتا ہو تعلیم کو صرف کاروبار بنا دیا گیا ہے۔ پرائیویٹ سکولزکالجزکی بھرمار ہے۔ اگرآپ کے پاس دولت ہے تو بلڈنگ اپنی بنا لیں ورنہ کرائے پر لے لیں کم ازکم تنخواہ پر ٹیچرز بے شمار دستیاب ہوتے ہیں خوب مال کمائیے ہر روز ہر ماہ جب مرضی ہو فیسوں میں اضافہ کریں اور ٹیچرز کی تنخواہ بے شک کبھی نہ بڑھائیں۔ بخدا کوئی بھی آپ کو پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ بس متعلقہ افسران کی مٹھی گرم کرتے رہے۔ بیٹی کا نام ہی قابل عزت ہوتا ہے کسی کی بھی ہو اس کا نام بھی بحالت مجبوری بتایا جاتا ہے۔ پرائیویٹ سکولز کالجزنے اپنا کاروبار چمکانے کے لئے کمال ہی کر دیا ہے ہر چوک چوراہے میں بڑے بڑے بورڈز لگے ہوتے ہیں۔ ان پر بیٹیوں کی تصاویر نام اور ساتھ نمبردرج ہوتے ہیں۔ والدین بھی نہیں بولتے قدریں ہی بدل چکی ہیں۔ بچے کو سارا سلیبس نہیں پڑھایا جاتا۔ بس نوٹس رٹائے جاتے ہیں۔ نوٹس بنانے والے خوب مال بناتے ہیں۔ ان سب تعلیمی معرکوں کے باوجود آپ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ بھی ملاحظہ فرما لیں جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان کا تعلیمی نظام دنیا بھر میں پرائمری سطح پر دی جانے والی تعلیم نئے تقاضوں کے معیار سے 50 سال جبکہ سیکنڈری سطح پر دی جانے والی تعلیم 60 سال پیچھے ہے۔ ایک پرائیویٹ کالج کا میں چشم دیدگواہ ہوں۔ 45 بچوں کا بی کام کا داخلہ بھیجا گیا جن میں چار بچے پاس ہوئے اور اکتالیس فیل ہوگئے۔ کالج میں مٹھائی تقسیم کی گئی میں نے حیران ہوکرسوال کیا کہ چار بچے پاس اور اکتالیس فیل ہوئے مٹھائی کس خوشی میں؟ مجھے بتایا گیا کہ آس پاس کالجز کے مقابلے میں ہمارا رزلٹ بہت اچھا آیا ہے۔ اب یہ ہوا کہ چار پاس ہونے والے بچوں کی خوب تشہیرکی مگر 41 فیل ہونے والوں کا ذکر تک نہ کیا گیا۔ دیکھئے تو اب آپ کو ہرگلی محلے بازار میں سکول کالج اور جامعات ملیں گی یقین کریں تعلیم نہیں ملے گی۔ صرف گائیڈیں پڑھ کر یا پیسے دے کر ڈگریاں لینے سے آپ کا بچہ ڈگری ہولڈر تو بن جاتا ہے مگر انسان نہیں بن پاتا۔ ایک قابل استاد کی صحبت سے جو روحانی تربیت ملتی تھی۔ اب وہ بالکل نظرنہیں آتی۔ اب وہ استاد بھی نہیں رہے معاشرے میں اخلاقی قدریں پامال ہوتی جا رہی ہیں نفسانفسی کا عالم ہے۔ ایک دوسرے کا احساس تو بالکل ہی مفقود ہوگیا ہے ایک گھر میں اگر پانچ بچے ڈگری یافتہ تو ہیں مگر اخلاقیات سے محروم ہوں گے پیسے سے سب کچھ خریدا جا رہا ہے انسان کی تلاش آج بھی جاری ہے آدم کی اولاد آدمی توسب ہیں مگر انسان کوئی کوئی!!

epaper

ای پیپر-دی نیشن