• news
  • image

آخری معرکہ …؟

(1) بریگیڈیئر قیوم نے گوالمنڈی کی کانوں میں ایک قیمتی پتھر تلاش کیا اور اسے اپنے ہمراز ہم شب و ہم نوالہ جنرل جیلانی کے سپرد کر دیا۔ جنرل نے اسے تراش خراش کر اپنے محسن و مربی جنرل ضیاء کو پیش کیا۔ ہیرے کی چمک دمک نے جنرل کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا۔ وہ ہزار جان سے اس پر مر مٹا اور کسی جذباتی لمحے میں اپنی عمرِ عزیز کا بقیہ حصہ بھی اسکے سپرد کر دیا۔ وہ انمول ہیرا ہمارے میاں نواز شریف تھے۔ میاں صاحب اقتدار کی سیڑھی پر مرحلہ وار چڑھتے گئے۔ پہلے وزیر خزانہ بنے پھر دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے مدارالمہام بن گئے۔ جب وزیراعظم جونیجو کو ضیاء الحق نے یک بینی و دوگوش نکال باہر کیا تو میاں صاحب نے بھی ان سے ترکِ تعلق کر لیا۔ میاں صاحب کا طوطی چار سو بولنے لگا۔ چوہدری پرویز الٰہی‘ ملک اللہ یار خان کھنڈا‘ مخدوم الطاف وغیرہ نے ’’بغاوت‘‘ کی کوشش کی لیکن اس کو جنرل صاحب کے ایک جملے نے ناکام بنا دیا۔ ’’نواز شریف کا کِلہ مضبوط ہے‘‘۔
(2) حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ یہی تاریخ کا سبق ہے۔ ضیاء الحق کی خودمختاری بڑی طاقتوں کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ انکے پاس ناپسندیدہ عناصر کو فارغ کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ جب جنرل کا جہاز بہاولپور سے اڑا تو بڑی طاقت نے اسے اتنی مہلت بھی نہ دی کہ ستلج کا پل کراس کر سکے۔ فضاء میں ایک آتشیں شعلہ بلند ہوا اور ضیاء الحق شناخت کی منزل سے بھی دور ہو گئے۔ جب آگ سرد ہوئی تو میاں صاحب کو چار سو اندھیرا دکھائی دیا۔ کئی سوئے ہوئے فتنے جاگ اٹھے۔ کسی نے جنرل جیلانی سے پوچھا ’’اب میاں نواز شریف کا کیا بنے گا؟ تو جنرل صاحب نے 'LIGHT WAY ' میں جواب دیا۔ ’’بشیرا۔ ان۔ ٹربل‘‘
(3) باایں ہمہ میاں صاحب نے کسی طور بچنا تھا سو بچ گئے۔ اس میں ان کا کوئی کمال نہ تھا۔ بے نظیر ایک اٹل حقیقت کی طرح سیاسی افق پر طلوع ہو رہی تھیں۔ ہمہ مقتدر طاقتیں کسی طور بھی اسے مکمل اختیار دینے پر تیار نہ تھیں۔ لہٰذا ضروری تھا کہ طاقت میں توازن پیدا کیا جائے۔ میاں صاحب کو انکے مقابل کھڑا کرنا اسی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ پنجاب میں آزاد امیدوار کافی بڑی تعداد میں کامیاب ہوئے۔ انہیں ساتھ ملانا وقت کا تقاضہ تھا۔ چھانگا مانگا آپریشن اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔
(4) اتنی لمبی چوڑی تمہید اس لیے باندھی گئی ہے کہ جو بات جنرل جیلانی نے لطیف پیرائے میں میاں نواز شریف کے متعلق کہی تھی اس کو سنجیدگی کے ساتھ عمران خان کے متعلق کہا جا سکتا ہے۔ خان صاحب بھری محفل میں تنہا ہو گئے ہیں۔ ایک طویل عرصے سے صرف اس بات کا خدشہ نہ تھا بلکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ سب پارٹیاں زبانی جمع خرچ کر رہی تھیں۔ میاں صاحب پر نفسیاتی دبائو ڈال کر اپنا الو سیدھا کرنا چاہتی تھیں۔ اس تنائو اور کھینچاتانی کا سب سے زیادہ فائدہ پیپلزپارٹی کو ہوا ہے۔ لوگ اسکے لیڈروں کی کرپشن کو بھول کر پانامہ لیکس کے گورکھ دھندے میں الجھ گئے ہیں۔ حکومت کے پاس اتنا وقت اور ہمت ہی نہیں ہے کہ آصف زرداری‘ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کیخلاف مقدمہ چلا سکے۔ خان کو یہ بات جان لینی چاہیے تھی کہ جو لوگ شیشے کے گھروں میں بیٹھے ہوتے ہیں وہ ایک دوسرے پر پتھر نہیں سنبھالتے‘ زبانی جمع کرتے رہتے ہیں۔ عزیزی بلاول کے بیانات اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ جو کچھ وہ کہتے ہیں خورشید شاہ دوسرے دن اسکی نفی کر دیتے ہیں۔ اب تو قبلہ شاہ صاحب نے میاں صاحب کو اقتدار میں رہنے کے نسخے بھی بتانے شروع کر دیئے فلاں آستین کے سانپ سے خبردار رہیں۔ فلاں وزیر پر کڑی نظر رکھیں۔ جب عمران خان کی اسمبلی میں بولنے کی باری تھی تو یہ کمال ہوشیاری سے ان کو باہر لے گئے۔ اب جبکہ سپیکر کو ماننے سے انکار کر دیا ہے اور رائے ونڈ مارچ کا عندیہ دیا ہے تو شاہ صاحب نے ہر دو تجاویز پر خط تنسیخ پھیر دیا ہے۔ اس پالیسی میں کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ اگر میاں صاحب کا احتساب ہوتا ہے تو آصف زرداری کسی طور بچ نہیں سکتے۔ حکومت گرنے کی صورت میں عمران خان کا راستہ صاف ہو گا۔ یہ انہیں کسی طور قبول نہیں ہو گا۔ کسی بڑی بلا سے بچنے کیلئے "LESSER EViL" سے مفاہمت کرنا پڑتی ہے۔ اسفند ولی اور مولانا فضل الرحمن عمران کے منطقی حریف ہیں۔ خان نے ایک کو اقتدار سے محروم کیا ہے تو دوسرے کا راستہ روکا ہے۔ ان کی دلی خواہش ہو گی کہ خان غلطی پر غلطی کریں اور ان کی مقبولیت میں کمی ہو جائے۔ 2018ء کا الیکشن اب کچھ اتنا دور بھی نہیں ہے۔ ایم کیو ایم شکست و ریخت کا شکار ہے۔ جس شخص کو جان کے لالے پڑے ہوں وہ دوسرے کی کیا مدد کر سکتا ہے۔ خان انکے لیڈز کے متعلق ’’ہرزہ سرائی‘‘ کرتے رہتے ہیں۔ ویسے بھی یہ حساب کا سیدھا سا سوال ہے۔ حکومت تو ہر وقت کچھ نہ کچھ دینے کی پوزیشن میں ہوتی ہے۔ خان کا بٹوا تو کسی مفلس کے گالوں کی طرح پچکا ہوا ہے۔ لہٰذا ایم کیو ایم سے کسی قسم کی امید یا توقع رکھنا عبث ہو گا۔ جماعت اسلامی بدقسمتی سے تین میں ہے نہ تیرہ میں۔ اس کا اندازاہ تو انکے احتجاجی جلسوں سے ہوتا ہے۔ یہ "COMiC RELEiF" تو فراہم کر سکتی ہے۔ حکومت کیلئے کسی قسم کا خطرہ نہیں بن سکتی۔
(5) باقی بچے کزن قادری صاحب۔ یہ جس طمطراق اور کروفر سے کینیڈا سے وارد ہوتے ہیں‘ اسی سرعت رفتار سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ سکول میں بعض حکمرانوں کے متعلق پڑھایا جاتا تھا۔ وہ آندھی کی رفتار سے آیا اور طوفان کی سی تیزی کے ساتھ واپس چلا گیا۔ محمود غزنوی نے تو سترہ حملے کئے تھے، کچھ یوں گمان ہوتا ہے کہ مولانا چوتھے حملے میں ہی ہتھیار پھینکنے والے ہیں۔ عجیب بیان دیتے ہیں۔ مخیرالعقول باتیں کرتے ہیں۔ ’’میں حکومت کو دو دن کا الٹی میٹم دیتا ہوں‘ دو گھنٹے کی مہلت دیتا ہوں‘ چند لمحوں تک انتظار کروں گا۔ اسکے بعد کیا ہوتا ہے؟ خبر آتی ہے کہ مولانا عارضہ قلب میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ علاج کی غرض سے بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ انکی ’’آنی جانیاں‘‘ دیکھ کر لوگوں نے چہ میگوئیاں شروع کر دی ہیں۔ اس بار تو حد ہی کر دی ہے۔ فرماتے ہیں شریف برادران اپنی شوگر ملز سے 16 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان چھوڑ دنیا کی کوئی ایسی شوگر مل نہیں ہے جس نے 15 میگاواٹ بجلی بھی پیدا کی ہو۔ بالغرض ایسا ہو تو یہ تعریف کی بات ہے۔ جو کام واپڈا۔ iPPS اور سولر انرجی والے ہی نہ کر سکے وہ معرکہ میاں برادران نے سرانجام دے دیا ہے۔ پھر فرمایا کہ انکی ملوں میں تین سو ہندوستانی ملازم ہیں جو جاسوسی کرتے ہیں۔ مل انتظامیہ نے اسے جھوٹ کا پلندا قرار دیا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پنڈی کے جلسے میں انہوں نے رائے عامہ لی کہ دھرنا جاتی امرا میں دینا ہے یا کسی اور جگہ۔ تمام لوگوں یک زبان جاتی امرا کا نام لیا۔ اب فرماتے ہیں کہ کسی کے گھر جانا ہمارہ شیوہ نہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر رائے لینے اور لوگوں کو مشتعل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ انہیں حسب سابق عمران خان کو ناکام بنانے کیلئے بلایا گیا ہے۔ یہ مشن مکمل ہوتے ہی ’’اللہ بیلی‘‘ ہو گئے۔
(6) اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان ایک دبنگ انسان ہے۔ انہوں نے کمال جرأت سے ڈر اور خوف کی فضاء کو کم کیا ہے لیکن انکی حکمت عملی ناقص ہے۔ انہیں سول سروس کے چند ناتجربہ کار لوگوں نے گھیر رکھا ہے۔ یہ لوگ تمباکو کے پائپ کی طرح منہ ٹیڑھا کر کے دریائے ٹیمز میں دھلی ہوئی انگریزی تو بول سکتے ہیں، معروضی حالات کا ادراک نہیں رکھتے۔ بے شک خان نے باہر سے کمائی ہوئی دولت سے لندن میں گھر خریدا تھا لیکن اسے اس وقت ظاہر نہیں کیا۔ نہ آف شور کمپنی کا ذکر کیا۔ اس سے ٹیکنیکل ناک آئوٹ ہو سکتا ہے کیونکہ انہوں نے اس کو "ADMiT" کیا ہے۔ اسکے برعکس میاں نواز شریف کی لندن میں پراپرٹی کو ثابت کرنا ایک مشکل عمل ہو گا کیونکہ وہ اس سے یکسر انکاری ہیں۔ قانون کی نظر میں حقیقت وہ نہیں ہوتی جو ہے بلکہ وہ ہوتی ہے جسے شہادت سے ثابت کیا جا سکے۔
MORAL CONViCTiONs, HOW SO EVER STRONG CAN NOT SUBSTiTUTE THE SUBSTANTiVE PROViSiONS Of LaW.
یہی وجہ ہے کہ 35 پنکچروں اور اردو بازار میں چھپنے والے بیلٹ پیپرز کے کیس کو جوڈیشل کمیشن کے سامنے ثابت نہ کیا جا سکا۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ حامد خان جیسے ممتاز قانون دان عمران کو صحیح مشورہ کیوں نہیں دیتے! ہو سکتا ہے کہ وہ بھی سول سروس کے مرغانِ کلنگ کے آگے بے بس ہوں!

epaper

ای پیپر-دی نیشن