الطاف حسین کی باتوں نے سیاسی ہلچل مچا دی
متحدہ قومی موومنٹ (MQM) کے بانی چیئرمین الطاف حسین کی پاکستان’مسلح افواج اور سیاسی قیادت کیخلاف تین منٹوں پر مشتمل بے تکی باتوں نے ملک کی سیاسی فضا میں ہلچل پیدا کر دی ہے جبکہ ملک میں پہلے ہی دہشت گردی کے واقعات سے جنم لینے والی بے یقینی ’ کراچی کی بدامنی اور حزب اختلاف کے ہنگاموں کے باعث مایوسی کی فضا تھی لیکن ان حالات کے باوجود اب ملک میں تیزی سے ابھرتی ہوئے تبدیلی کے عمل کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل کی صورت حال کا احاطہ کیا جا سکے۔
الطاف حسین نے وہ کچھ کر دکھایا جو کوئی اور نہیں کر سکتاتھا۔انکی بے تکی باتوں نے ایم کیو ایم کی صفوں میں ایسی ہلچل مچا دی ہے کہ جس کے رد عمل کے طور پر عوام نے خود الطاف حسین ہی کوغیض و غضب کا نشانہ بنایا ہے اور ایم کیو ایم کی قیادت گہرے صدمے سے دوچار ہوکر اپنے سیاسی دفاتر کی اینٹ سے اینٹ بجتی دیکھ رہی ہے جس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ شایدانہیں ایسے ہی وقت کا انتظار تھا کہ جس کا فائدہ اٹھا کروہ اپنے قائد سے وفاداری کے بوجھ سے نجات حاصل کر کے سکھ کا سانس لینا چاہتے تھے۔یہ سب کچھ اتنا چانک ہوا کہ خود ایم کیو ایم‘ حکومت سندھ‘ دیگر سیاسی جماعتیں اور وفاقی حکومت نے اس ناگہانی صورتحال پراپنا رد عمل ظاہر کرنے میں وقت لیا جبکہ میڈیا حسب معمول مزیدسنسنی خیزی پیدا کرنے میں مصروف رہا ہے۔
ایم کیو ایم نے اپنے قائد کی پالیسیوں کی مذمت کرکے اپنی سیاسی سوچ کی وضاحت کر دی ہے مگر اب انہیں اپنی سلامتی کا خیال رکھنا ہوگا کیونکہ ایم کیو ایم کی صفوں میں الطاف حسین کے وفادار بھی ہیں جن میں ٹارگٹ کلر(Target killers) اور قانون شکن موجود ہیں جو ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ارکان کو نشانہ بنا سکتے ہیں اور خطرناک نتائج کی دھمکیوں پر مشتمل بینرزکی خاصی تعداد بھی دیکھی گئی ہے۔آفاق احمد اور مصطفی کمال جیسے ایم کیو ایم کے باغی گروپوں نے پہلے ہی خود کو الطاف حسین کی سیاسی سوچ سے علیحدہ کر رکھا ہے’ اب ان کیلئے یہی موذوں وقت ہے کیونکہ انہیں اپنے سیاسی نظریات کی ترویج کیلئے زمین ہموارملی ہے اور انکی سوچ فاروق ستار کی سیاسی سوچ سیزیادہ مختلف نہیں ہے۔یہ انکی صوابدید پر ہے کہ وہ اکیلے پرواز کرنے کو ترجیح دیتے ہیں یامتحد ہوکر چلنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ اہلیان کراچی‘ صوبہ سندھ اور پورے پاکستان کے عوام کی نظریں اب ان پر ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ ’’کراچی کا کھویا ہوا اقتصادی و سیاسی وقار بحال کردو۔‘‘ کیونکہ خود کردہ گناہوں کیلئے الطاف یا مودی کو مطعون کرنے کا اب جواز باقی نہیں رہا۔
حکومت سندھ نے ایم کیو ایم کو درپیش صورت حال میں غیر سیاسی رد عمل کا اظہار کیا ہے اور ابھی تک وزیر اعلی کے حکم پرانکے دفاتر کی اینٹ سے اینٹ بجا ئی جارہی ہے حالانکہ چاہیئے یہ تھا کہ ایم کیو ایم کو سندھ میں اپنی سیاسی ساکھ بحال کرنے میں مدد دیتے۔ خصوصاً اس وقت جبکہ پیپلز پارٹی اپنا قومی پارٹی ہونے کا تشخص بتدریج کھو کرسندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے جو جمہوری نظام کیلئے درست نہیں ہے کیونکہ دو مضبوط متحارب قومی سیاسی جماعتوں پر مشتمل سیاسی نظام ملک میں جمہوریت کے استحکام کیلئے لازم ہے اس لئے پیپلز پارٹی کو اپنا کھویاہوا سیاسی مقام دوبارہ حاصل کرنے کا مرحلہ درپیش ہے۔یہ کام اکیلے بلاول کیلئے مشکل ہے’ نئی حکمت عملی’ نئی سوچ اور مضبوط ارادوں کی ضرورت ہے جس کی پارٹی میں کمی نہیں ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ان طوفان خیز ایام کے دوران نہایت محتاط رویہ اپنائے رکھا اور مناسب موقع پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ‘‘ایم کیو ایم پر کوئی قدغن نہیں لگائی جائیگی اور جو کچھ الطاف حسین نے کہا ہے یا کیا ہے ’ ایم کیو ایم کراچی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔’’اس طرح اپنے محتاط رویے سے مسلم لیگ (ن) نے ایم کیو ایم کے دل میں اپنے لئے نرم گوشہ بنایا ہے اور امکان ہے کہ ایم کیو ایم سندھ میں اور خصوصاکراچی میں مسلم لیگ (ن) کو قدم جمانے میں معاون ثابت ہوگی۔لہذا مسلم لیگ (ن) واحد قومی جماعت کے طور پر ابھری ہے جس کو چاروں صوبوں میں پذیرائی حاصل ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسکے 2018ء کے انتخابات میں فتح یاب ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ میاں نواز شریف کی یہ سیاسی حکمت عملی کامیاب ہے اور انہیں آصف زرداری پر فوقیت حاصل ہے۔
وہ سیاسی جماعتیں جو سڑکوں پر شور مچا رہی ہیں وہ اپنا وقت ضائع کر رہی ہیں۔ جنگ کی طرح سیاست میں بھی یہ امر اہمیت کا حامل ہے کہ ’’ناکامی کودہر ایا نہ جائے‘‘ لیکن وہ ڈی چوک میں اٹھائی جانے والی گذشتہ سال کی ناکامی دہرا رہے ہیں جس سے ان کی اپنی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے کیونکہ ضمنی انتخابات میں حاصل ہونے والی ناکامی سے انکی کمزوری کے اثرات واضح دکھائی دیتے ہیں اور اب انہوں نے 24 ستمبر کو رائیونڈ کی جانب ’’تباہ کن مارچ ‘‘ کا فیصلہ کیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ شاید انہوں نے سیاسی خود کشی کا فیصلہ کر لیا ہے۔انہیں چاہیئے کہ اپنی سیاسی حکمت عملی کو تبدیل کریں اور زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں۔
پاکستان اب اپنی تاریخ کے دلچسپ دور میں داخل ہو چکا ہے۔ اندرونی سیاست میں پختگی آتی جا رہی ہے جس سے سیاسی بہتری کے امکانات واضح ہوئے ہیں۔حکومت قبل از وقت انتخابات کا فیصلہ بھی کر سکتی ہے یا 2018ء کے عام انتخابات میں حصہ لیگی’ دونوں حالتوں میں پرامن تبدیلی ممکن ہے۔اس طرح معاشرتی‘ اقتصادی و سیاسی استحکام سے ملک میں عدل و انصاف کی فراہمی بھی ممکن ہو گی۔ خارجی طور پر کشمیری اور افغان عوام کی تحاریک آزادی اپنے منطقی انجام کی جانب گامزن ہیں جس سے بھارت اور امریکہ پسپائی اختیار کر تے دکھائی دیتے ہیں اور چین کی ابھرتی ہوئی طاقت کیخلاف Trans-Pacific Partnership (TPP)جیسے معاہدے کے ذریعے ایشیائی مرکز(Asia Pivot) کو تحفظ فراہم کرنے کی کوششیں جا ری ہیں۔دوسری طرف پاکستان کیلئے روس’ چین‘ پاکستان اورایران کا ابھرتا ہوا اتحاد (RCPI) خطے میں قیام امن کی نوید ثابت ہوگا جس کا محور(Pivot) افغانیوں کی ناقابل شکست قوت مزاحمت ہوگی۔