• news

زبان نہ کھلوائی جائے، پسند نا پسند پر گرفتاریاں ہوتی ہیں، کچھ ملزم نیب کو نظر ہی نہیں آتے: جسٹس عظمت

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں بنک ڈیفالٹرز کی درخواست ضمانت کے حوالے سے کیس کی سماعت میں عدالت نیب کی ناقص کارکردگی اور دیگر ملزموں کی عدم گرفتاری پر برس پڑی۔ شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ملزموں سے قانون کے مطابق یکساں سلوک کے بجائے احتساب بیورو کی جانب سے پسند و ناپسند کی بنیاد پرگرفتاریاں کی جاتی ہیں۔ حال یہ ہے کہ مطلوب ملزم مبینہ ملی بھگت سے نیب کے دفتر کا چکر لگا کر واپس چلا جاتا ہے‘ اسے کوئی نہیں پوچھتا۔ نیب افسر کیس کے ایک ملزم کو گرفتار کرنے کے بعد دیگر کے ازخود آنے کا انتظار کرتے ہیں کہ ملزم خود چل کر آئے تو اسے گرفتار کریں۔ نیب میں پلی بار گین کے نام ملزموں کو کلین چٹ دی جاتی ہے۔ تین رکنی بنچ نے نجی بنک سے قرضہ فراڈ کیس میں ملوث ملزم کی درخواست ضمانت کی سماعت کی تو ملزم کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کا موکل محمود انور زبیری 3 سال 8 ماہ سے جیل میں قید ہے جبکہ قرضہ فراڈ میں ملوث دیگر ملزم اختیار حسین اور ناصر عزیز مفرور ہیں۔ نیب ان کی گرفتاری میں سستی سے کام لے رہا ہے جبکہ ان کے موکل کو کہا جاتا ہے کہ دیگر ملزم گرفتار ہونگے تو اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ درخواست گزار کا کتنا قصور بنتا اور کتنی رقم اس کے حصے کے مطابق واجب الادا ہے۔ وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ نیب کا دوہرا معیار ہے۔ فاضل عدالت محمود زبیری کی ضمانت پر رہائی کا حکم دے۔ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ملزموں کی گرفتاری کیلئے کوشش کی جا رہی ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ نیب جس کو دل کرتا ہے جیل میں ڈال دیتا ہے۔ نیب نے جہاں ملزموں کو گرفتار نہیں کرنا ہوتا‘ وہاں ہاتھ ہی نہیں ڈالتا۔ اندرون خانہ کیا کچھ ہوتا ہے‘ ہماری زبان نہ کھلوائی جائے۔ عدالت نے ملزم محمود احمد زبیری کی ایک کروڑ روپے مالیت کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کرتے ہوئے ملزم کی ضمانت پر رہائی کا حکم جاری کر دیا ہے۔ صباح نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ کرپشن کے مقدمات میں ملوث ملزموں میں سے کچھ نیب کو نظر ہی نہیں آتے جو کمزور ہوتا ہے سارا غصہ اسی پر نکال دیا جاتا ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ بنک والوں کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا۔ کیا ان کو سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں۔ دیگر 8 ملزموں کو کوں گرفتار نہیں کیا گیا۔ ان کو زمین کھا گئی تھی یا آسمان نے نگل لیا تھا کہ نیب افسروں کو نظر نہیں آ ئے۔ چیف جسٹس نے کہا نیب عدالت نے تو 30 دن کے اندر ٹرائل مکمل کرنا ہوتا ہے۔ کیا سپریم کورٹ اپنا دائرہ اختیار بڑھا کر قانون کو تبدیل کر دے۔ ایک ملزم کو 45 ماہ سے جیل میں کیوں بند کر رکھا ہے۔ کیا آپ اسے کرپشن کے الزام میں پھانسی پر لٹکانا چاہتے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن