الطاف سمیت پاکستان مخالف نعرے لگانے والوں کیخلاف آرٹیکل 6کے تحت کارروائی کا مطالبہ: سندھ اسمبلی میں متحدہ کی قرارداد متفقہ منظور
کراچی (وقائع نگار + ایجنسیاں + نیٹ نیوز) سندھ کی اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ کے بانی کیخلاف انکی اپنی ہی جماعت کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی ہے۔ یہ قرارداد ایم کیو ایم کے سینئر رہنما سید سردار احمد نے پیش کی جس کی تمام جماعتوں نے حمایت کی۔ قرارداد میں الطاف حسین کی جانب سے 22 اگست کو کراچی پریس کلب کے باہر کارکنوں سے کئے گئے خطاب اور میڈیا ہائوسز پر حملوں کیخلاف مذمت کی گئی ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ ملوث افراد کیخلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی جائے۔ بی بی سی کے مطابق یہ قرارداد لاکر سیاسی مشکلات کی شکار ایم کیو ایم اسمبلی میں سیاسی تنہائی سے بچ گئی۔ قرارداد میں کہا گیا تھاکہ 22 اگست کو پاکستان مخالف نعرے لگائے جانے اور لندن سے ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی متنازعہ اور اشتعال انگیز تقریر، ملکی سالمیت پر حملے اور میڈیا ہائوسز بالخصوص اے آر وائی پر حملوں کی یہ ایوان شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ یہ ایوان کی بھی جارحیت،، ہر قسم کے جرائم، تشدد، دہشت گردی اور پاکستان مخالف نعروں کی مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ متعلقہ افراد کے خلاف قانون اور آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سخت کارروائی کی جائے۔ یہ ایوان پاکستان کی پارلیمنٹ، مسلح افواج، میڈیا، عدلیہ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تحت کام کرنے والے تمام جمہوری اداروں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔ ایم کیو ایم کی اس قرارداد کی تمام جماعتوں نے حمایت کی۔ اس کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن خیر النسا مغل، تحریک انصاف کے رکن خرم شیر زمان اور مسلم لیگ ف کی رکن نصرت سحر عباسی نے قراردادیں پیش کیں جن میں پاکستان فوج اور میڈیا سے یکجہتی کا بھی اظہار کیا گیا تھا۔ ایم کیو ایم کے رہنما اور قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ ایم کیو ایم چھوڑ کر کسی دوسری جماعت میں چلے جائیں تو وہ بھی شفاف اور قابل قبول ہو جائیں گے۔ اس کے بعد ان کی حب الوطنی پر بھی شک نہیں کیا جائے گا۔ 22 اگست کے روز کی صورتحال کے بارے میں انہوں نے ایوان کو بتایا کہ اس روز صبح تک تمام معاملات معمول کے مطابق چل رہے تھے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما اظہاریکجہتی کررہے ہیں۔ مطالبات کو جائز طریقے سے حل کرانے کی یقین دہانی کرا رہے ہیں۔ اس وقت توقع تھی کہ شام تک کوئی حکومتی وفد آئے گا اور بھوک ہڑتال ختم کردیں گے۔ وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے ٹیلی فون کرکے انہیں صورتحال سے آگاہ کیا تو انہوں نے ذمہ داروں کے خلاف سخت ایکشن لینے کی حمایت کی لیکن اس کے بعد اس رات ان کے ساتھ جو ہوا وہ کسی قیامت سے کم نہیں۔ انہوں نے کہا کہ 22 اگست کی صورتحال کے بعد ان کے پاس تین آپشن موجودتھے۔ پہلا موبائل بند کرکے ملک چھوڑ جائیں، دوسرا یہ کہ کسی دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرلیں، تیسرا راستہ وہ ہی تھا جس پر وہ چل رہے ہیں۔ یہ ہی سب سے خطرناک آپشن ہے۔ وہ خطاب کے دوران آبدیدہ ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ قوم کے لئے انگاروں پر چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے سید سردار احمد، مسلم لیگ (نض کی نصرت سحر عباسی، تحریک انصاف کے خرم شیر زمان، پیپلز پارٹی کی جانب سے خیرالنساء مغل، مسلم لیگ کی جانب سے سورتھ تھیو نے قرارداد پیش کی۔ قرارداد میں ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین اور پاکستان مخالف نعرے لگانے والوں کے خلاف بھی آرٹیکل6 کے تحت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بانی ایم کیو ایم کی پاکستان مخالف تقریر پر آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی جائے۔ سندھ اسمبلی کے ایوان اور اسمبلی احاطے میں بانی ایم کیو ایم کیخلاف نعرے بازی بھی کی گئی۔ اس کے علاوہ اجلاس میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے گئے۔ واضح رہے بانی ایم کیو ایم نے گزشتہ ماہ 22 اگست کو کراچی پریس کلب پر بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھے کارکنوں سے خطاب کے دوران پاکستان مخالف نعرے لگوائے تھے، جس پر کارکنوں نے مشتعل ہو کر نجی نیوز چینل کے دفتر پر حملہ کیا تھا۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رؤف صدیقی نے کہا کہ وہ اسلام اور پاکستان پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے، پاکستان بنانے کیلئے لاکھوں مسلمانوں نے قربانی دی، پاکستان کی سلامتی کیلئے جتنی بھی قربانی چاہئے دینے کیلئے تیار ہیں، پاکستان کیخلاف اس شخص نے بات کی جس سے وہ سب سے زیادہ عقیدت رکھتے تھے لیکن جب محبت اور عقیدت ٹوٹتی ہے توالمیہ ہوتا ہے۔ جس پریس کلب کے باہر پاکستان کیخلاف نعرے لگے، اسی پریس کلب کے باہر ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں نے آواز اٹھائی۔ مسلم لیگ فنکشنل کی مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ سندھ پر تمام حکمران جماعتوں نے کوتاہی کی، آج ہم سب اپنے حقوق کا مطالبہ کررہے ہیں، آج ہمیں اپنے آپ کو دیکھنے کی ضرورت ہے، سسٹم کو ٹھیک کیا جائے، ہمارا نصاب ہمارے جدید کردار کا ذکر نہیں کرتا، ایم کیو ایم کے فیصل سبزواری نے کہا کہ 22اگست کو جو ہوا وہ ایم کیو ایم کی بھوک ہڑتال کا نتیجہ نہیں تھا لیکن 22 اگست کے بعد مہاجروں کی پہچان پر بحث شروع ہوگئی، ہم اپنے معاملات میں بالکل واضح ہیں، ہم پر جو قرض ہے ہم نے وہ قرض اتارنے کے لئے انتہائی تلخ فیصلہ کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خوف کے باعث ایم کیو ایم پاکستان بنائی گئی، ہم بانی ایم کیو ایم سے علیحدہ کسی خوف کے باعث نہیں ہوئے، اگر ہم خوفزدہ ہوتے تو خاموش ہو کر بیٹھ جاتے پاکستان نہ آتے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ملک میں ایک وفاقی کوٹہ ہے لیکن سندھ میں ایک صوبائی کوٹہ بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ مہاجر نہیں، وہ تو پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں۔ انہوں نے درسی نصاب میں سندھی پڑھ رکھی ہے، وہ ایوان میں بولی جانے والی سندھی کو بھی سمجھتے ہیں۔ فیصل سبزواری نے کہا کہ وزیراعلی سندھ کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے خواجہ اظہار کی گرفتاری پر صحیح قدم اٹھایا، ہم نے ذمہ دارانہ سیاست کا بیڑہ اٹھایا ہے اور مشکل وقت میں سیاست کرتے رہیں گے، ہمیں سوشل میڈیا پر گالیاں دی جارہی ہیں، غدار قرار دیا جارہا ہے، زخم پر نمک لگانا آسان ہے مرہم رکھنا مشکل۔ مہاجر غدار نہ تھے، نہ ہیں، نہ ہوں گے، ہم اس ریاست کے شہری ہیں، ریاست اور حکومت سے شکوہ کریں گے، ہمیں دیوار سے نہ لگایا جائے، ہمارا ساتھ دیا جائے۔ سندھ میں کئی بار اکثریت ہونے کے باوجود ایم کیو ایم کا وزیراعلیٰ نہیں بنایا گیا۔ کسی کو اچھا لگے یا برا ہمارے بڑوں نے ملک کیلئے جدوجہد کی اور قربانیاں دی ہیں، ہمارے پاس بھوک ہڑتال کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ بھوک ہڑتال میں ہمارے ساتھ یہ ہوجائے گا اندازہ نہیں تھا۔ وہ ایم کیو ایم کے بانی کی نہیں اس قرارداد کی حمایت کرتے ہیں لیکن انصاف سب کیلئے ہونا چاہیے، نجی چینل پر حملے پر آرٹیکل 6 لگایا جائے اور پی ٹی وی پر حملہ کرنیوالوں کو چھوڑ دیا جائے۔ بانی ایم کیو ایم کہے تو آرٹیکل 6 کوئی اور ایسی بات کرے تو اسے چھوڑ دیا جائے۔ اس سے قبل سپیکر آغا سراج درانی کی سربراہی میں سندھ اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تاہم اجلاس کے ابتدا میں کئی برسوں کی روایات کے برعکس ایم کیو ایم کے ارکان کی جانب سے اپنی جماعت کے بانی کی درازی عمر کیلئے دعا نہیں کرائی گئی۔ اجلاس کے باقاعدہ آغاز پر سپیکر نے نومنتخب ارکان اسمبلی اورنگزیب پنہور اور مرتضیٰ بلوچ سے حلف لیا۔ ایم کیو ایم رہنما اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ ایم کیو ایم کاہر کارکن مجرم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 22 اگست کو اللہ کی آزمائش تھی اور یہ دن کسی قیامت سے کم نہیں تھا۔ اس واقعے کی اطلاع انہیں وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے موصول ہوئی اور اس وقت وہ اسمبلی میں تھے۔ اس واقعے کے بعد ان کے پاس ملک بدر ہونے، پارٹی بدلنے اور واقعہ کی ذمہ داری لیکر معاملات حل کرنے کے سارے آپشن تھے لیکن ہم نے پارٹی نہیں بدلی اور نہ ہی ملک سے باہر گئے۔ خواجہ اظہار کا کہنا تھا کہ اگر پارٹی بدلتے تو بھی قوم فیصلے کو قبول کرتی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ پرخطر راستوں پر چلنے کا فیصلہ کیا اور ذمہ داری لی۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی رابطہ کمیٹی نے کارکنوں کو سوشل میڈیا پر بانی ایم کیو ایم کا خطاب سننے سے روک دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق بانی ایم کیو ایم کے لندن سے آنے والے بیان پر ردعمل میں رابطہ کمیٹی نے کہا کہ کارکن 23 اگست کی پالیسی پر عمل پیرا رہیں، خلاف ورزی کرنے والے کارکنان کی رکنیت ختم کردی جائے گی۔ قرارداد پیش کرنے کے بعد ایوان سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما اور سینئر وزیر نثار کھوڑو نے کہا کہ شخص کی بدزبانی پر قوم کو سزا دینا مناسب نہیں، اس کے ساتھیوں نے ملک کی خاطر اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔ ہم نے ایم کیو ایم کی ہڑتال کو اہمیت دی اور وہاں پہنچے اور بات چیت کے ذریعے راستہ نکالنے کی کوشش کی۔ 22 اگست کا واقعہ کسی کے لئے قابل برداشت نہیں۔ فنکشنل لیگ کی رہنما نصرت سحر عباسی نے کہا کہ 22 اگست کا دن قوم کبھی نہیں بھولے گی۔