• news

پانامہ کے بعد بہاماس لیکس: مزید 150 پاکستانیوں کی 69 آف شور کمپنیاں

لندن (نوائے وقت رپورٹ+ نیٹ نیوز) پانامہ لیکس کے بعد ایک اور بڑا مالیاتی سکینڈل بہاماس لیکس سامنے آگیا ہے۔ بہاماس میں سینکڑوں افراد کے خفیہ اکائونٹس ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بہاماس لیکس میں 150 پاکستانیوں کی 69 آف شور کمپنیوں کے نام بھی آئے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ ان پاکستانیوں کے ناموں کے علاوہ ہیں جو پانامہ لیکس میں آئے ان میں سابق وزیر صحت نصیر خان کے بیٹے کی بہاماس میں آف شور کمپنی ہے۔ خانانی اینڈ کالیا کے الطاف خانانی کے بیٹے عبید الطاف خانانی کی بھی بہاماس میں آف شور کمپنی سامنے آئی ہے۔ یاد رہے کہ الطاف خانانی دہشت گردی کی فنانسنگ کے الزام میں اس وقت امریکہ میں زیرحراست ہیں۔ جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر خورشید بہاماس میں رجسٹرڈ بنک کے ڈائریکٹر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اس بنک پر نائن الیون کے بعد امریکہ اور اقوام متحدہ نے پابندیاں لگا دی تھیں۔ پروفیسر خورشید احمد نے کہا ہے کہ عقیدہ اسلامک بنک میں میرا کوئی شیئر نہیں، بہاماس میں رجسٹرڈ بنک کو پیسے لئے بغیر مشاورت فراہم کی تھی۔ کراچی کے معروف بلڈر محسن ابوبکر شیخانی کی بھی بہاماس میں ایک آف شور کمپنی ہے۔ تہمینہ درانی کی والدہ ثمینہ درانی ایک آف شور کمپنی کی مالکہ ہیں۔ واضح رہے تہمینہ درانی وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی اہلیہ ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بہاماس کی پونے 2 لاکھ آف شور کمپنیوں میں سے 69 کمپنیاں پاکستانیوں کی ہیں۔ ان 69 کمپنیوں کے مالکوں اور ڈائریکٹروں میں 150 پاکستانی ہیں۔ بہاماس میں مالیاتی اداروں اور تعمیراتی شعبے کی اہم شخصیات کی بھی آف شور کمپنیاں سامنے آئی ہیں۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی کے کزن احمد راتب پوپل طالبان کے بھی دوست ہیں، اننکی بہاماس میں آف شور کمپنی نکل آئی ہے۔ وہ اس آف شور کمپنی کے ڈائریکٹر ہیں۔ اس سے قبل ان پر امریکہ میں ہیروئن کی سمگلنگ کا الزام لگ چکا ہے۔ احمد راتب طالبان حکومت کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کے ترجمان رہ چکے ہیں۔ کرزئی نے احمد راتب کی کمپنی کو تیل کی تلاش کیلئے 3 ارب ڈالر کا ٹھیکہ دیا تھا۔ وہ امریکہ میں ہیروئن سمگلنگ کے الزام میں 9 سال قید رہے ہیں۔ حامد کرزئی کے صدر رہنے تک احمد راتب کی کمپنی آپریشنل رہی ہے۔ کرزئی کے کزن نے اپنی آف شور کمپنی کا پتہ اسلام آباد کا لکھوایا ہے۔ برطانوی اخبار کی رپورٹ کے مطابق برطانوی وزیر داخلہ ایمبررڈ بہاماس کی دو آف شور کمپنیوں کی ڈائریکٹر رہی ہیں۔ ایک اور کمپنی کے شریک ڈائریکٹر فراڈ پر جیل جا چکے ہیں۔ ایمبر کا کہنا ہے کہ بزنس میں ان کا کیریئر سیاست سے قبل تھا تاہم انہوں نے مزید سوالوں کے جواب دینے سے گریز کیا ہے۔ اخبار کے مطابق ڈیو کیمرون کا دفاع کرتے وقت انہوں نے اپنے اس بزنس کا ذکر نہیں کیا تھا۔ یورپی یونین کی اخبار کے مطابق سابق کمشنر نیلی کروئز نے آف شور فرم میں اپنی ڈائریکٹرشپ سے انکار سے گریز کیا ہے۔ گارڈین کے مطابق بہاماس لیکس نے ان سیاستدانوں کو بے نقاب کر دیا ہے جنہوں نے ٹیکس بچانے کیلئے یہ آف شور کمپنیاں قائم کیں۔

ای پیپر-دی نیشن