• news
  • image

اعتزاز احسن/ شیخ رشید کا۔ ”رنگِ جُگت“

آج کا دَور جُگت باز سیاستدانوں کا دَور ہے اور عوام و خواص اُن کے لئے دِیدہ ¿دِل فرش راہ کئے ہوتے ہیں۔ آخری مُغل بادشاہ بہادر شاہ کے اُستاد محمد ابراہیم ذوق نے کہا تھا کہ....
”نہ ہُوا، پَر ہُوا، مِیر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا“
پہلا ”جُگت باز“ کون تھا؟ مجھے نہیں معلوم۔ جُگت ہندی زبان کا لفظ ہے جو اردو اور پنجابی میں بھی مُستعمل ہے اور اِس کے معنی ہیں چترائی، دانائی، کاریگری، سازش، جوڑ توڑ، لطیفہ، طنز، بذلہ سنجی اور ذُو معنی بات۔ بادشاہوں کے دَور میں جُگت بازوں کو دربار میں اعلیٰ عہدے دئیے جاتے تھے۔ جمہوری دَور میں بھی۔ ہمارے کئی صدور اور وزرائے اعظم بھی جُگت بازی میں طاق تھے لیکن مجھے کینیڈین ”شیخ اُلاسلام“ علاّمہ طاہر اُلقادری پر ترس آتا ہے۔ موصوف الیکٹرانک مِیڈیا پر جوشِ خطابت سے مُنہ سے تھوک اور جھاگ نکالتے ہُوئے اِدھر اُدھر اچھالتے ہُوئے غریبوں کے حق میں اِنقلاب لانے کا اعلان کرتے ہیں تو غریب غُرباءایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ ”ایویں جُگت بازی کر رہیا اے!“
مَیں کبھی کبھی سابق وفاقی وزرائ، پاکستان پیپلز پارٹی کے سینٹ میں قائدِ اختلاف بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن اور عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید احمد کی جُگتوں کا مطالعہ اور مشاہدہ کرتا ہُوں تو اُن پر سر بھی دُھنتا ہُوں۔ بیرسٹر اعتزاز احسن شاعر ہیں لیکن مَیں نے اُنہیں اپنا کلام ترنُم سے پڑھتے (گاتے) نہیں سُنا۔ شیخ صاحب تو خود اپنے کلام کو ”ہلکی پھلکی موسیقی“ کا نام دیتے ہیں۔ تو معزز قارئین و قاریات! آج کے کالم میں سینیٹر بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن اور عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید احمد کی جُگت بازی پر ہی تبصرہ برداشت کریں۔ اگرچہ مرحوم مُنیر نیازی نے کہا تھا کہ....
”رنگ کوئی وفا نہیں کرتا“
لیکن اعتزاز احسن صاحب اور شیخ صاحب کا جُگت رنگ وکھرا وکھرا ہے۔ اُستاد سحر نے اپنے غیر سیاستدان محبوب سے مخاطب ہو کر کہا تھا....
”اُن دِنوں میں تری صُحبت کا تو یہ رنگ نہ تھا
جوڑ باز ایک نہ تھا، ایک جُگت رنگ نہ تھا“
بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن کہتے ہیں کہ ”وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف اپنے اختیارات استعمال نہیں کر رہے۔ G.H.Q میں وزیرِ دفاع کا "Protocol" (سرکاری/ سفارتی آداب و رسوم) سب سے اعلیٰ ہونا چاہیے“۔ اُس کے ساتھ ہی اُنہوں نے کہا کہ ”اگر وزیرِ دفاع خود ہی چِیف آف آرمی سٹاف کا برِیف کیس اُٹھا کر پیچھے چلنے کو تیار ہو جائے تو کوئی کیا کرسکتا ہے؟“ مَیں حیران ہُوا۔ کیا اعتزاز احسن صاحب کے عِلم میں نہیں کہ خواجہ محمد آصف پانی و بجلی کے وفاقی وزیر ہیں۔ وہ "Full Fledged" وزیر دفاع نہیں۔ اُن کے پاس تو وزارتِ دفاع کا اضافی چارج ہے۔ بائی دی وے اگر خواجہ صاحب باقاعدہ اور رولز آف بزنس کے تحت خود مختار وزیر دفاع ہوتے اور چیف آف آرمی سٹاف کا بریفک کیس اُٹھا کر اُن کے پیچھے چلنے سے کوئی (اور اعتزاز احسن صاحب بھی) اُن کا کیا کر لیتے؟ ممکن ہے خواجہ محمد آصف نے اپنی ”خواجگی“ کو عجز میں تبدیل کرنے کا ارادہ کرلِیا ہو؟ علاّمہ اقبالؒ نے اپنے دَور کے کسی ”خواجہ“ کو دیکھ کر ”بندہ¿ کوچہ گر“ سے افسوس کا اظہار کرتے ہُوئے کہا تھا کہ....
”بندہ ہے کُوچہ گرد ابھی، خواجہ بلند بام ابھی“
وزیراعظم نواز شریف لندن میں زیرِ علاج تھے۔ جب 7 جون 2016ءکو خواجہ محمد آصف نے عجز و انکسار کا اظہار کرتے ہُوئے اپنی ”خواجگی“ کو بالائے طاق رکھ دِیا تھا۔ جنرل راحیل شریف کی دعوت/ طلبی پر خواجہ محمد آصف، وزیرِ خزانہ محمد اسحاق ڈار اور مشیرِ خارجہ سرتاج عزیز وغیرہ G.H.Q میں تشریف لے گئے تھے۔ صدرِ مملکت جناب ممنون حسین بلحاظ عہدہ پاکستان کی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہیں۔ خواجہ محمد آصف اُن کی ہدایت/ اجازت سے ہی G.H.Q تشریف لے گئے ہوں گے؟
خواجہ محمد آصف عُمر میں جنرل راحیل شریف سے بڑے ہیں۔ مَیں اِس بات پر یقین نہیں کر سکتا کہ (اشارةً بھی) جنرل صاحب نے خواجہ صاحب کو اپنے پیچھے چلنے کےلئے کہا ہوگا؟ جنرل صاحب کے بریف کیس میں اُن کی کوئی ذاتی (اور قیمتی) چیز ہوگی۔ اور اُنہوں نے اپنا بریف کیس بزرگ خواجہ صاحب کی تحویل میں دے دِیا ہے تو کوئی ہرج نہیں لیکن وہ "Situation" اور تھی جو ہماری سابقہ فلمی ہیروئن اور اب بھی نامور گلوکارہ مُسرت نذیر نے اپنے پنجابی گیت میں پیدا کی تھی جب گایا....
”پچّھے پچّھے آﺅندا میری چال ویہندا آئیں
چِیرے والیا ویکھدا آئیں وے! میرا لونگ گواچا“
پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہُوئے پانامہ لِیکس کے حوالے سے شیخ رشید احمد نے کہا کہ ”ہم چاہتے ہیں کہ جن لوگوں نے پاکستان کا مال کھایا ہے انہیں ہاضمے کی گولی دی جائے کیونکہ یہ معلوم ہی نہیں ہو رہا کہ چور کون ہے اور چوکیدار کون ؟“ شاعر نے شیخ رشید احمد سے نہیں بلکہ کسی ”مذہبی شیخ“ سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ....
”شیخ صاحب! خُدا خُدا کیجئے!“
شیخ رشید احمد صاحب! آپ تو جوش خطابت میں پاکستان کا مال کھانے والوں کا مقدمہ لڑ رہے ہیں؟ اگر آپ کے نُسخے کے مطابق کھاﺅ لوگوں کو ہاضمے کی گولی دی گئی تو ”لکّڑ ہضم، پتّھر ہضم“ کی صُورت پیدا ہو جائے گی اور چوکیدار تو چوروں کو دور سے ہی دیکھتا رہ جائے گا!“ علاّمہ طاہر اُلقادری کی کینیڈا واپسی پر شیخ صاحب نے کہا کہ ”طاہر اُلقادری اپنے سارے برتن لے کر نہیں گئے۔ وہ آخر میں عمران خان کے ساتھ مِل جائیں گے“۔ شیخ صاحب نے وضاحت نہیں کی کہ ”آخر میں“ سے اُن کی مراد کیا ہے؟ اگر القادری صاحب واقعی عمران خان کے ساتھ مِل گئے تو وہ رائے وِنڈ مارچ میں آخر میں کھڑے کیوں ہوں گے؟ ہندی اور پنجابی میں برتن کو ”بھانڈا“ کہتے ہیں۔ شیخ صاحب کو بتانا چاہیے تھا کہ القادری صاحب اپنے سارے بھانڈے اپنے ساتھ کینیڈا کیوں نہیں لے گئے؟ اور جو بھانڈے وہ پاکستان میں چھوڑ گئے ہیں وہ اِمانت کے طور پر لال حویلی میں رکھوائے گئے ہیں یا بنی گالہ میں؟ اور وہ شیشے یا چینی کے ہیں یا تانبے اور پِیتل کے؟
بنی گالہ کے ارد گرد تو نہیں لیکن لال حویلی کے علاقے میں ”بھانڈے قلعی کرالو“ کی آوازیں ضُرور سُنائی دیتی ہوں گی۔ فرض کِیا القادری صاحب کے بھانڈوں میں سے کوئی بھانڈا ٹوٹ جاتا ہے تو اُس کی تلافی کون کرے گا؟ ”ہِیر رانجھا“ کی لوک کہانی کے مطابق ہِیر کی شادی کے بعد جب رانجھا اُس سے مِلنے کےلئے جوگی کا بھیس بنا کر اُس کے سُسرال جاتا ہے تو ہِیر سے اِتفاقاً اُس کا ”ٹھوٹھا“ (پیالہ) ٹوٹ جاتا ہے اور وہ رانجھا سے کہتی ہے....
”گیا بھجّ تقدِیر دے نال ٹُھوٹھا
ساتھوں قِیمت لے جا مَٹّ دی وے!“
یعنی ”اے رانجھا! قِسمت سے مجھ سے تمہارا پیالہ ٹوٹ گیا ہے اور مَیں اُس کی تلافی میں تمہیں ایک مَٹّ (بڑے گھڑے کی قیمت) دے سکتی ہُوں“۔ شیخ صاحب! کہیں آپ کو اور عمران خان کو علاّمہ طاہر اُلقادری کے بھانڈوں کی حفاظت مہنگی نہ پڑ جائے!

epaper

ای پیپر-دی نیشن