جارحیت پر دفاع میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے: پاکستان
نیو یارک (سلیم بخاری سے) وزیراعظم نواز شریف نے اپنے دورہ امریکہ اور اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے خطاب اور دیگر ملاقاتوں میں ہونے والی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنرل اسمبلی میں خطاب اور تمام رہنمائوں کے ساتھ ملاقاتوں میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا تاہم حکومت پاکستان اپنے ’’مشن کشمیر‘‘ کے حوالے سے اس پر اکتفا نہیں کرے گی بلکہ اس حوالے سے مزید اقدامات بھی جاری رکھے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اب سلامتی کونسل کے 5 مستقل ارکان ممالک کو کشمیر میں ہونے والے مظالم اور بھارتی جارحیت کے ثبوت پیش کیے جائیں گے اور زور دیا جائے گا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے چھ دہائیوں قبل کئے جانے والے وعدے کی تکمیل میں مدد کریں اور ان سے کہا جائے گا کہ کشمیر کے لوگوں کو حق خود ارادیت دلانا ان کا فرض ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان اگر قراردادوں پر عملدرآمد میں ناکام رہتے ہیں تو یہ ادارے کی ساکھ پر بڑا سوال ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ جان کیری، برطانوی وزیراعظم تھریسامے، حسن روحانی، شہزادہ نائف، چینی وزیراعظم لی کی چیانگ اور ترک صدر طیب اردگان کے ساتھ ملاقاتوں میں کشمیر میں بھارتی مظالم کو بھرپور طریقے سے اٹھایا اب یہ عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ بھارتی مظالم کا نوٹس لے، انہوں نے کہا کہ بھارت کشمیریوں پر ظلم ڈھا کر اور پاکستان پر الزامات لگا کر مسئلہ کشمیر سے توجہ نہیں ہٹا سکتا، پاکستان امن کا داعی ہے۔ میرے دورہ کا بڑا مقصد صرف مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنا تھا، امریکہ اور اقوام متحدہ کو کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کے ثبوت دیئے، یہ مسئلہ صرف دو ملکوں کا نہیں بلکہ اقوام متحدہ کا بھی ہے، اقوام متحدہ سے مقبوضہ کشمیر میں حقائق جاننے کیلئے انسانی حقوق کمیشن بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے، آپریشن ضرب عضب کامیابی سے جاری ہے، پاک فوج کو بڑی کامیابیاں ملی ہیں، آپریشن میں2 لاکھ 4ہزار سکیورٹی اہلکار حصہ لے رہے ہیں، افغانستان میں بھی امن چاہتے ہیں یہ پورے خطے کے لئے فائدہ مند ہو گا ، سی پیک منصوبے کی یورپی ممالک نے بھی تعریف کی ہے ۔ وہ جمعرات کو ناشتے کی میز پر صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔ بھارت کشمیریوں پر ظلم ڈھا رہا ہے، ابتک بھارتی مظالم میں 150کشمیری اپنی بینائی کھو بیٹھے ہیں جبکہ 108سے زائد شہید ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے کشمیری عوام اس وقت غصے میں ہیں۔ وزیراعظم نے کہا ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقات میں ایرانی صدر نے گوادر کی ترقی کو سراہا اور کہا کہ چاہ بہار اور گوادر سے اقتصادی ترقی کو فروغ ملے گا ۔نیوکلیئر سپلائر گروپ میں پاکستان کی شمولیت کے حوالے سے بھی عالمی رہنمائوں سے بات چیت ہوئی ہے ، وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے امریکہ اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون کو کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کے ثبوت دیئے ہیں۔انہوں نے کہا اب بھارت نے سوپور واقعہ کی ذمہ داری بھی پاکستان پر ڈال دی ہے جو مناسب نہیں ہے ،بغیر تحقیقات کے جلد بازی میں صرف 10 سے 12گھنٹے بعد ہی پاکستان پر الزام لگا دیا، اگر تحقیقات کے بعد لگایا جاتا تو پھر بھی تھا۔ انہوں نے کہا ہم افغانستان میں بھی امن چاہتے ہیں یہ پورے خطے کے لئے فائدہ مند ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ پاکستان پر الزامات لگانا بھارت کی عادت بن چکی ہے‘ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال انتہائی خراب ہے، ہم دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے، پاکستان کی معاشی صورتحال دن بدن بہتر ہو رہی ہے۔ ملک میں بجلی کا بحران حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں 2018ء میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔ وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے بلا جواز الزامات لگانا غلط ہے، اوڑی واقعے کے چند گھنٹوں بعد ہی پاکستان پر الزام لگانا ہر گز درست نہیں، ایسے واقعات کی تحقیقات کیلئے دن اور ہفتے درکار ہوتے ہیں، بھارت کی جلد بازی، الزام تراشی پر سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے لیڈروں سے کشمیر پر خصوصی طور پر بات کی ہے، ہم ہر جگہ یہ مسائل اٹھاتے رہے ہیں لیکن پاکستانی میڈیا کو بھی ہمارے ساتھ محنت کرنا ہوگی۔ قبل ازیں و زیر اعظم محمد نواز شریف سے نیپال کے وزیر خارجہ نے ملاقات کی جس میں پاکستان اور نیپال کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے اور تجارتی حجم کو بڑھانے پر غور کیا گیا۔ وزیراعظم نے سابق برطانوی وزیر خارجہ اور امور دولت مشترکہ ڈیوڈ ملی بینڈ سے بھی ملاقات کی ۔ وزیراعظم نے خصوصی طور پر کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے انسانیت سوز مظالم پر کشمیری عالمی برادری کی توجہ کے منتظر ہیں ،مسئلہ کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے ۔ نمائندہ خصوصی کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ملاقات کے بعد سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مسئلہ کا حل مذاکرات سے نکالا جائے، بانکی مون نے مہاجرین کی میزبانی پر پاکستان کی تعریف بھی۔علاوہ ازیں وزیراعظم نے پاکستان امریکہ بزنس کونسل کی تقریب سے خطاب میں کہا کہ پاکستان امریکہ بزنس کونسل سے خطاب میرے ہر دور کا حصہ رہا ہے۔ عوامی رابطہ کے فروغ میں تجارتی و معاشی تعلقات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ امریکہ پاکستان کا اہم اقتصادی و تجارتی شراکت دار ہے۔ دونوں ملکوں کی شراکت داری نجی شعبے کی ترقی کیلئے اہمیت رکھتی ہے۔ صدر اوباما سے ملاقات میں تجارت و سرمایہ کاری کیلئے مشترکہ کوششوں پر اتفاق ہوا۔ دوطرفہ تجارت، معیشت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون کے وسیع مواقع ہیں۔ مورکن سٹینلے کا پاکستان سٹاک مارکیٹ کو ابھرتی مارکیٹوں میںشامل کرنا اہم ہے۔ امریکی منڈیوں تک ترجیحی رسائی چاہتے ہیں۔
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر+ آئی این پی + صباح نیوز) ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ بھارت پرانی عادت کے تحت پاکستان پر الزام تراشی کر رہا ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج بھارتی جارحیت پر ملک کے دفاع کے لئے ہر صورت میں تیار ہیں، ملکی سلامتی پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ اوڑی حملے کے بعد بھارت نے بغیر ثبوت کے پاکستان پر الزام لگایا، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے پیدا ہونے والی صورتحال خطرناک شکل اختیار کر چکی ہے، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ دنیا کی توجہ حاصل کر چکا ہے، ا قوام متحدہ جنرل اسمبلی سے خطاب میں وزیراعظم نے کشمیر کا مقدمہ مضبوط انداز میں پیش کیا۔ نفیس زکریا نے ہفتہ وار بریفنگ میں کہا مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عروج پر پہنچ گئی ہیں۔ اقوام متحدہ معاملے کا نوٹس لے۔ وزیراعظم نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ثبوت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو دے دیئے اور فیکٹ فائنڈنگ مشن مقبوضہ کشمیر بھیجنے کا مطالبہ کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کی تعداد 118ہو چکی ہے۔ بھارتی میڈیا نے نیپالی وزیراعظم کے بیان کو توڑ مروڑ کر پاکستان کے خلاف پیش کیا۔ نیپال نے ایک سرکاری بیان میں واضح کیا ہے وزیراعظم کا بیان پاکستان کے خلاف نہیں تھا۔ بھارتی میڈیا نے ماضی قریب میں بنگلہ دیشی وزیر کا بیان بھی اسی طرح توڑ مروڑ کر شائع کیا تھا۔ بنگلہ دیشی وزیر نے خود بیان کی تردید کردی تھی۔ بھارت کے یوم جمہوریہ پر بھارتی وزیر اعظم کا بیان پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔ اقوام متحدہ اور او آئی سی کے سیکرٹری جنرل دونوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم کی مذمت کی ہے۔ نیویارک حملوں میں گرفتار ہونے والا دہشت گرد پاکستانی نہیں افغان نژاد امریکی شہری ہے جو 1985ء سے امریکہ میں مقیم ہے۔ اس کی اہلیہ بھی پاکستانی نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ وہ پاکستان میں کچھ عرصہ مقیم رہا ہے۔ امریکہ کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو بار بار سراہا گیا ہے۔ براہمداغ بگٹی کی جانب سے بھارتی شہریت کی درخواست بھارت کی بلوچستان میں مداخلت اور دہشت گردی میں مالی امداد کا ثبوت ہے۔ بھارت میں گائے کے ذبح اور گوشت کھانے کی رپورٹس دیکھی ہیں۔ ریاست کی پشت پناہی میں بھارت میں مسلم کش اقدامات پر کئی بھارتی سکالروں اداکاروں نے اپنے اعزازات بھارتی حکومت کو واپس کر دیئے۔ بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد بھارتی مداخلت کے ثبوت اقوام متحدہ کو فراہم کیے جائیں گے۔ تحقیقات کے مکمل ہونے پر کل بھوشن یادیو کے اعترافات پر مبنی دستاویزات اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو فراہم کیے جانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ مقبوضہ کشمیر کے بھارتی پارلیمنٹ میں رکن اسمبلی طارق حمید کڑا نے بھارتی مظالم کو نازیوں سے تشبیہہ دیتے ہوئے لوک سبھا سے استعفی دیا تھا۔ سعودی عرب دنیا بھر کے لوگوں کو روزگار فراہم کر رہا ہے۔ سعودی حکومت نے متاثرہ پاکستانیوں کی امداد کے لیے یقین دہانیاں کرائی تھیں۔ اسلام آباد میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس پروگرام کے مطابق ہو گی۔ بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے سارک کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کی اطلاع نہیں دی۔ اوڑی حملے کے بعد بھارت نے بغیر ثبوت کے پاکستان پر الزام لگایا۔ ہم بھارتی الزامات مسترد کرتے ہیں۔ ماضی میں بھی بھارت نے پاکستان پر جھوٹے الزامات لگائے۔ ہر حملے کے تحقیقات میں بھارت کے اپنے لوگ اور تنظیمیں ملوث نکلے۔ سمجھوتہ ایکسپریس حملے میں بھارت کے آرمی آفیسر ملوث نکلے۔ عالمی برادری پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں کی معترف ہے۔ مودی کی حکومت نے انتہاپسندی کو فروغ دیا۔ پاکستان ائرفورس کی مشقیں معمول کا حصہ ہیں۔ پاکستان ایک پرامن ملک ہے اور اپنے ہمسایوں کو بھی پرامن دیکھنا چاہتا ہے۔ بھارت کی پاکستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں مداخلت ثابت ہو چکی ہے اس کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ قبل ازیں مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اوڑی حملے پر صرف الزامات سے کام نہیں چلے گا۔ حملے کی بین الاقوامی تحقیقات کی گئیں تو پاکستان حمایت کرے گا۔ اگر بھارت کہتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کوئی مسئلہ نہیں تو پھر وہاں سات لاکھ افواج کیا کر رہی ہیں۔ افواج دفاع کے لئے تیار ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ مسائل بات چیت سے حل ہو جائیں۔ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ بھارت مذاکرات کر کے پاکستان پر کوئی احسان نہیں کر رہا۔ دریں اثنا پاک فضائیہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ پاک فضائیہ کی تربیتی مشقیں ہائی مارک 2016 بھرپور انداز میں جاری ہیں، پاک فضائیہ کی مشقیں ہائی مارک کے نام سے باقاعدگی سے منعقد ہوتی ہیں۔ ادھر موٹر وے پر دوسرے روز بھی دفاعی جنگی مشقیں جاری رہیں اور عام ٹریفک بند رہی‘ جنگی طیاروں میراج‘ مشاق اور ایف 7 طیاروں کی لینڈنگ اور ٹیک آف کی مشقیں ہوئیں۔بی بی سی کے مطابق ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ بھارتی جارحیت کی صورت میں ملک کے دفاع میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی۔ دریں اثناء بھارت کی اشتعال انگیزی کے جواب مین پاک فضائیہ کی مشقیں جاری ہیں جبکہ پاک بحریہ نے بھی ساحلی علاقوں مین مشقیں شروع کر دی ہیں۔ گزشتہ روز وائس چیف آف نیول سٹاف وائس ایڈمرل خان ہشام بن صدیق نے ساحلی علاقوں تربت، مکران، جیوانی اور اورماڑہ میں بحری مشقوں میں مشغول پاک بحریہ کی یونٹس کی آپریشنل تیاریوں کا جائزہ لیا۔ دورے کے دوران ایڈمرل کو پاک بحریہ کی آپریشنل تیاریوں اور گوادر بندر گاہ کی سکیورٹی خصوصاً پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے روایتی اور غیر روایتی خطرات سے نبردآزما ہونے کے لئے کئے جانے والے اقدامات پر بریفنگ دی گئی۔ ایڈمرل نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کو سکیورٹی کی فراہمی اور دشمن کے کسی بھی ناپاک عزم کو خاک میں ملانے کے لئے پاک بحریہ مکمل طور پر تیار ہے۔ دریں اثناء ملیحتہ لودھی نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت، بانکی مون بھی ثبوت دیکھ کر دہل گئے۔ بھارتی مظالم کی د ستاویزات پاکستان کی طویل المدت حکمت عملی کا حصہ ہے۔ بان کی مون نے مقبوضہ کشمیر کے مسئلے پر ذاتی دلچسپی لی۔ مقبوضہ کشمیر میں فیکٹ فائنڈنگ مشن کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی چہرہ دنیا بھر میں بے نقاب ہو گیا اور بھارت پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کی کوششوں میں ناکام ہو گیا۔
اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) بھارت کی طرف سے فوجی کشیدگی میں کمی کا تاثر دیا جا رہا ہے‘ لیکن پاکستان کی چاروں مسلح افواج، بھارت کے ساتھ سرعت سے شروع ہونے والی لڑائی کیلئے تیاری مکمل کر چکی ہیں اور بھارتی بری فوج کی نقل و حرکت سے متعلق اطلاعات کی بنیاد پر باور کیا جاتا ہے کہ وہ کنٹرول لائن پر کسی پسندیدہ مقام کو میدان جنگ بنانا چاہتا ہے۔ فوجی کشیدگی کی نوعیت کے پیش نظر فضائیہ کے تمام افسروں و جوانوں اور کنٹرول لائن و ورکنگ بائونڈری کے اگلے مورچوں پر متعین بری فوج کے دستوں کی چھٹیاں مؤخر کر دی گئی ہیں۔ پاکستان کی تیاریوں سے واقف ایک ذریعہ کے مطابق نئی دہلی نے پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط کو وزارت خارجہ بلا کر اوڑی حملہ کے شواہد حوالے کرنے کے اقدام کے ذریعہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ سفارتی ذرائع بروئے کار لائے گا اور اس کا پاکستان کے ساتھ فوجی چھیڑ چھاڑ کا کوئی ارادہ نہیں‘ لیکن پاکستان اس جھانسے میں نہیں آئے گا۔ نئی دہلی کی سفارتکاری کیساتھ ساتھ پاکستان، بھارتی مسلح افواج کی تعیناتی کے طریق کار اور اس کی فوجی نقل و حرکت پر بھرپور نظر رکھے ہوئے ہے۔ فضائیہ، بری فوج اور بحریہ کے علاوہ کروز و بیلسٹک میزائلوں اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دستے ’’سٹرٹیجک فورس کمانڈ‘‘ نے بھی دشمن کی جارحیت کی صورت میں اپنے اہداف کا تعین بھی کر لیا ہے ۔ اس ذریعہ کے مطابق بھارت کی عسکری قیادت کو بخوبی احساس ہے کہ پاکستان کے اندر اس کی کسی سرجیکل کارروائی کی ناکامی کی وجہ سے بھارت کی فوجی و معاشی طاقت کا تصور بالکل برباد ہو جائے گا۔ چنانچہ ناکامی کے خوف، مذکورہ کارروائی کی فوجی استعداد نہ ہونے اور پاکستان کے شدید ردعمل کی وجہ سے قوی امکان یہ ہے کہ بھارت کنٹرول لائن پر کسی پسندیدہ مقام کو میدان جنگ بنائے جس میں اس کا توپ خانہ کلیدی کردار ادا کرے گا۔ دہشت گردی کی کارروائی اور افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے ذریعہ پاکستانی سیکورٹی فورسز پر حملے اس کی دوسری ترجیح ہو سکتی ہے۔ ایک ذریعہ کے مطابق بھارت کی طرف سے افغان سرزمین کے استعمال کا پورا امکان موجود ہے کیونکہ بھارت کے مشیر قومی سلامتی اجیت دووال ہی بھارتی حکمت عملی وضع کرتے ہیں۔ وہ ایک پیشہ ور فوجی ہونے کے بجائے جاسوس ہیں جس کے پیش نظر بھارت افغانستان میں موجود اپنے اثاثے استعمال کر سکتا ہے جس پر پاکستان کی پوری نظر ہے۔ مشقوں اور خطرہ کی صورتحال کی وجہ سے شمالی علاقہ جات کی فضائی حدود سول استعمال کیلئے بدستور بند ہیں۔پاک بحریہ کو بھی تمام ساحلی علاقوں اور شمالی بحیرہ عرب میں چوکس کر دیا گیا۔