• news

انسانی حقوق کے دعویدار مقبوضہ کشمیر میں مظالم پر گونگے بہرے ہوگئے: فضل الرحمن

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر اور پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ پاکستان بھارت کشیدگی خطے میں قیام امن کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنے گی، وزیراعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر کو جرأت مندانہ انداز میں پیش کیا ہے، ان کی پوری تقریر کشمیر پر مرکوز تھی، انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ کشمیر کمیٹی نے 27 ستمبر کو ان تمام ایلچیوں کا خصوصی اجلاس طلب کرلیا ہے جو مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے بیرون ملک بھیجے جارہے ہیں، کسی کو ایلچیوں کے انتخاب پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے۔ وزیراعظم کی صوابدید ہے کہ وہ کسی کو بھی ایلچی بناکر بھیجیں، اس بات کا کسی کو استحقاق نہیں کہ وہ ایلچی بھیجنے پر اصرار کرے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے اقوام متحدہ میں بھارت کو کشمیر سمیت تمام تنازعات پر باہمی مذاکرات کی پیشکش کرکے جرأت مندانہ اقدام کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس ڈپلومیٹک پاسپورٹ ہے لیکن امریکہ مجھے ویزا دینے سے انکاری ہے، اس لئے میں وزیراعظم کے ساتھ اقوام متحدہ نہیں جاسکا۔ کشمیر کمیٹی نے جو کام کیا وہ سب کچھ اقوام متحدہ میں وزیراعظم کی تقریر میں نظر آگیا۔ اب امریکہ نے نائن الیون کے متاثرین کو سعودی عرب کے خلاف مقدمہ کرنے کا اختیار دے کر جانبدارانہ فیصلہ کیا۔ یہ حق ان لوگوں کو بھی حاصل ہونا چاہئے جنہیں عراق میں کوئی قصور نہ ہونے پر ہلاک کیا گیا۔ انسانی حقوق کے دعوے دار مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر ’’بہرے، گونگے، اندھے‘‘ ہو جاتے ہیں۔ دو ماہ سے مقبوضہ کشمیر میں قتل و غارت کا بازار گرم ہے، کشمیریوں کا خون ارزاں ہوگیا ہے، وزیراعظم نے بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کرکے ایک ذمہ دار ریاست کا ثبوت فراہم کیا۔ پاکستان کی سرحدوں پر بھارتی فوج کا اجتماع لمحہ فکریہ ہے، سیاسی فیصلے حکومت کرتی ہے، جنگ تنازعہ کو الجھا دیتی ہے۔ بھارت نے انتہا پسندانہ روش اختیار کررکھی ہے، جہاں تک پارلیمانی کشمیر کمیٹی کا تعلق ہے اسے مضبوط بنانے کے لئے حکومت ہماری تجاویز پر سنجیدگی سے غور کررہی ہے۔ایم کیو ایم کی قیادت کا معاملہ داخلی ہے، اس پر تبصرہ نہیں کرنا چاہئے۔ سندھ اور پنجاب میں دینی مدارس کے خلاف صوبائی حکومتوں نے ’’جنگ‘‘ شروع کررکھی ہے، ہم جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان حکومتوں کا ایجنڈا دینی مدارس کو نقصان پہنچانا ہے۔ سندھ میں دینی مدارس کی قیادت سے مشاورت کئے بغیر قانون سازی کی جارہی ہے۔ لیکن یہ اساسی قانون بنائے بغیر مدارس کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔ علمائے کرام کو شیڈول4- میں ڈالا جارہا ہے۔ بستہ ب کے بدمعاشوں کو شیڈول4- میں ڈالاجاتا تھا اب علمائے کرام کو ڈالا جارہا ہے۔ فاٹا اصلاحات پر بحث مباحثہ کے بعد عمل درآمد ہونا چاہئے۔ جرگہ کے فیصلوں کو قانونی حیثیت ملنی چاہئے جس کے بعد ہائی کورٹ اور سپریم سے رجوع کرنے کا حق بھی ملنا چاہئے۔ فاٹا کے سٹیٹس کا سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا گلبدین کو طالبان سے مل کر افغان حکومت سے معاہدہ کرنا چاہئے۔

ای پیپر-دی نیشن