حکومت وعدے پورے نہیں کر سکی‘ مستعفی ہو جائے : خورشید شاہ‘ فاٹا کے عوام پر مقبوضہ کشمیر جیسے مظالم ہو رہے ہیں : فضل الرحمن
اسلام آباد (خصوصی نمائندہ + ایجنسیاں) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ نواز حکومت کی معاشی پالیسیوں نے ملک کی زراعت اور صنعت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، کسان سڑکوں پر آگئے ہیں جبکہ صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کے 320ارب روپے کا ٹیکس ری فنڈ حکومت اور سٹیٹ بنک دبائے بیٹھا ہے، برآمدات میں 19فیصد کمی واقع ہوگئی ہے، حکمرانوں نے 6ماہ میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا دعویٰ کیا ساڑھے تین سال میں ختم نہ کرسکے، ہم ماں باپ کا رکھا کسی کا نام تبدیل نہیں کرنا چاہتے لیکن جن ملکوں میں سیاسی اخلاقیات ہیں وہاں اتنے بڑے دعوے کی ناکامی پر ایک شخص نہیں پوری حکومت مستعفی ہو جاتی۔ حکومت وعدے پورے کرنے میں ناکام ہو گئی اخلاقیات کی بنیاد پر وزیراعظم کو مستعفی ہو جانا چاہئے۔ وہ وفاقی وزیر پرویز رشید کی پریس کانفرنس میں اٹھائے سوالات کا جواب دے رہے تھے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ ایوان میں بطور وزیراعظم سب سے زیادہ حاضری سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی اور بطور اپوزیشن لیڈر میری رہی ہے، وزراءاعظم میں سب سے کم حاضری موجودہ وزیراعظم محمد نوازشریف کی ہے، ایوان میں ارکان کے بولنے پر پابندی افسوسناک ہے، ہمارے دور حکومت میں عالمی غذائی بحران کے باوجود صدر آصف علی زرداری کے حکم پر گندم کی درآمدی قیمت 400 روپے من سے 900روپے کی گئی جس سے 2009 میں پاکستان گندم میں خود کفیل ہوا اور گندم برآمد کی گئی۔ 6مہینے میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ کیا گیا مگر ختم نہ کرنے پر کوئی استعفیٰ سامنے نہ آیا اگر کوئی مہذب ملک ہوتا تو ساری حکومت اپنا دعویٰ پورا نہ کرنے پر مستعفیٰ ہوجاتی۔ مسلم لیگ ن کے پارلیمانی سیکرٹری رجب علی بلوچ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی نے گندم کی امدادی قیمت9سو روپے فی من کی مگر گندم کی ان پٹس مہنگی کرکے کسانوں سے فائدہ واپس لے لیا، خورشید شاہ سندھ میں کیوں احتجاج نہیں کرتے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں 20 گھنٹے لوڈشیڈنگ تھی۔ فضل الرحمن نے کہا ہے کہ فاٹا میں آپریشن دہشت گردوں کے خلاف کم قبائلی عوام کے خلاف زیادہ ہے‘ جو مظالم بھارت مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر ڈھا رہا ہے وہی مظالم فاٹا کے عوام پر ڈھائے جارہے ہیں‘ فاٹا کے مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ وہاں کے رہنے والوں پر مسلط نہ کیا جائے‘ فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنے سے ڈیورنڈ لائن کا ایشو دوبارہ اٹھ کھڑا ہوگا۔ اس حساس مسئلے کو چھیڑا گیا تو کل افغانستان جہلم تک کے علاقوں پر دعویٰ کرسکتا ہے‘ فاٹا میں ریفرنڈم کرایا جائے کہ وہاں کے عوام کے پی میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا الگ صوبہ بنانا چاہتے ہیں‘ فاٹا کے عوام پر اسلام آباد سے کوئی فیصلہ نہ ٹھونسا جائے۔ فاٹا سے مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی غالب خان نے فضل الرحمن کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ مولانا فاٹا ایشو پر اپنی سیاست چمکا رہے ہیں، ان کی پارٹی نے کبھی فاٹا کے عوام کے حقوق کی آواز بلند نہیں کی، پتہ نہیں فضل الرحمن کشمیر کی تحریک آزادی‘ فاٹا کے حقوق اور پاک افغان بارڈر کو متنازعہ بنا کر کس کی خدمت کررہے ہیں۔ قبل ازیں فضل الرحمن نے کہا کہ فاٹا اصلاحات رپورٹ میں قبائل کے بارے لفظ باغی استعمال کیا گیا میں اس پر احتجاج کرتا ہوں۔ قبائل پر فرنگیوں والا سلوک کیا جارہا ہے۔ قائد اعظم نے قبائلیوں کی آزادانہ حیثیت برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ آپریشن ضرب عضب دہشت گردی کے خلاف کم اور عوام کے خلاف زیادہ ہے۔ قبائلی علاقوں میں طالبان کو کمیشن دیئے بغیر کوئی تعمیر و ترقی کا منصوبہ شروع نہیں ہوسکتا۔ طالبان کی آمدن 1.5 بلین روپے ماہانہ سے زیادہ ہے۔ آپ کہتے ہیں قبائلی علاقے کلیئر کردیئے ہیں مگر طالبان آج بھی بھتہ وصول کررہے ہیں پشاور کے ہر دکاندار کے پاس طالبان کی پرچی پڑی ہے۔ علاوہ ازیں وقفہ سوالات میں حکومت نے آگاہ کیا ہے کہ سی پیک منصوبے میں شامل 7سڑکوں کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے، گزشتہ 3 برسوں میں تیل اور گیس کے 82نئے ذخائر دریافت ہوئے ہیں، ملک میں اس وقت 2ہزار ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی قلت ہے، گذشتہ تین سالوں میں موٹرویزاورہائی ویز پر6ارب89کروڑ سے زائد جرمانے کئے گئے، جون 2015سے اگست 2016تک ملک میں ناقص ڈرنکنگ واٹر کے52 پلانٹس بند کئے گئے۔ کوشش کر رہے ہیں ملک میں گیس کے50فیصد صارفین کو ایل این جی پر منتقل کریں۔
قومی اسمبلی