جنگ سے کسی کا فائدہ نہیں امن ہونا چاہیے‘ طالبان کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں : حکمت یار‘ افغان صدر کے ہمراہ امن معاہدے پر دستخط
کابل (نوائے وقت رپورٹ+ آئی این پی+ اے ایف پی + صباح نیوز) افغان صدر اشرف غنی اور حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے امن معاہدے پر دستخط کردئیے۔ صدارتی محل میں ایک اہم تقریب ہوئی۔ 500 سے زائد ممتاز سیاسی شخصیات نے شرکت کی۔ سکیورٹی کے سخت انتظامات تھے۔ صدارتی محل کو آنے والی سڑک بند کر دی گئی۔ طالبان کے ساتھ 2001ءمیں شروع ہونے والی جنگ کے بعد حکومت کیخلاف لڑنے والے کسی گروپ کے ساتھ کابل حکومت کا یہ پہلا امن معاہدہ ہے۔ عالمی سطح پر اس کا خیرمقدم کیا جا رہا ہے۔ حکمت یار کے بیٹے حبیب الرحمان نے نجی چینل انٹرویو میںکہا کہ بین الاقومی برادری نے حزب اسلامی پر عائد پابندیاں اٹھانے سے اتفاق کیا ہے اس ضمن میں کابل میں سفارتکاروں کے ساتھ ملاقاتیں کی گئی ہیں۔ پارٹی سوویت افواج کیخلاف جہاد کے دوران متاثر ہونے والے خاندانوں کو معاوضے کی ادائیگی پر توجہ دیگی۔ افغان حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان حتمی امن معاہدہ طے پا گیا۔ گلبدین حکمت یار اور شمالی اتحاد نے افغان حکومت سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا مطالبہ کیا۔ حکمت یار نے افغانستان میں تقریب سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا۔ حکمت یار نے کہا کہ ہمارے بعد طالبان سے بھی مذاکرات ہونے چاہئیں۔ افغان حکومت طالبان کے اہم زیر حراست رہنماﺅں کو غیر مشروط رہا کرے۔ افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے بھی طالبان سے مذکرات کی حمایت کی ہے۔ احمد شاہ مسعودکے جانشین عطامحمدنور کی جانب سے بھی مذاکرات کا مطالبہ کیا گیا۔ حکمت یار نے کہا یہ جنگ افغانوں اور نہ ہی ہمسایوں کے مفاد میں ہے۔ طالبان بھی نرمی لا کر حکومت سے مذاکرات کریں۔ خطے میں جاری جنگ سے کسی کا فائدہ نہیں۔ امن بحال ہونا چاہئے۔ میری دعا ہے ملک کی خودمختاری اور سالمیت برقرار رہے۔ اس معاہدے سے امید ہے بحرا ن کا خاتمہ ہوگا۔ فریقین اور اپوزیشن پارٹیاں امن عمل میں شریک ہوں۔ معاہدے کی حمایت کریں۔ ایک اور غیرملکی مداخلت ختم ہوگی۔ غیرملکی فوجی یہاں سے چلے جائیں گے۔ اشرف غنی کا کہنا تھا وقت آگیا طالبان سوچ لیں انہیں کیا کرنا ہے۔ کیا وہ امن چاہتے ہیں یا جنگ۔