گوادر کے اصل حقائق
کسی بھی اچھے رہنما کی دیگر خصوصیات کے علاوہ اس کی ایک اہم نشانی یہ ہے کہ عوام کو اُس پر غیرمتنرلزل یقین ہو ۔ ہمارے عظیم قائدمحمد علی جناح کی شخصیت ایسی تھی کہ وہ ان کی زبان سے نکلی ہوئی ہر بات پر لوگ آنکھیں بند کر کے اعتبار کرتے تھے۔ مثلاً ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہمارے پیارے قائد ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے لوگوں کا جمِ غفیرتھا۔ پیچھے بیٹھے ہوئے افراد تک اُن کی آواز صاف طور پر نہیں آ رہی تھی۔ ایک غیر ملکی صحافی جو وہاں پر موجود تھا اُس نے چند لوگوں سے پوچھا کہ آپ تک قائد کی آواز نہیں آ رہی تو انہوں نے جواب دیا ’’ہمیں یقین ہے وہ جو بھی کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتے‘‘ یہ ہے ایک صحیح عوامی رہنما کی نشانی ۔ اس کسوٹی پر جب ہم اپنے لیڈر کو پر کھتے ہیں تو بے حد مایوسی ہوتی ہے اُن کا اصول ہے کہ ’’ کہتا ہوں جھوٹ کہ سچ کی عادت نہیں مجھے‘‘ گوادر کے بارے میں ہماری حکومت کی طرف سے جو بیانات آ رہے ہیں وہ غلط بیانی پر مشتمل ہیں۔حکومتی دعوئوں کے برعکس حقائق کچھ اور ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
اول:گوادر میں پینے کا پانی نایاب ہے او ر وہاں کے باسی صرف بارش کے پانی پر گزارہ کرتے ہیں جس کے لیے صرف ایک ڈیم AKRA KAUR DAM ہے۔ 2006ء میں علاقے میں بہت زیادہ بارشوں کی وجہ سے یہ ڈیم بھر گیا۔ لیکن جب اس آبی ذخیرے میں پانی ختم اور خشک ہو گیا تو علاقے میں پانی کی شدید قلت ہو گئی ۔ یکم ستمبر 2016 ء کو ہماری موجودہ حکومت نے اعلان کیا کہ یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ ’’ گوادر ایک بین الاقوامی شہر کی حیثیت حاصل کر رہا ہے‘‘ اس وقت گوادر کو 4.6 ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے جب کہ اکرا ڈیم صرف 2.5 ملین گیلن پانی مہیا کر سکتا ہے نیز 2020ء تک گوادر کو 12 ملین گیلن پانی کی ضرورت ہو گی۔ اس وقت KARNAT میں موجود DESALINATIONA PLANT دولاکھ گیلن پانی مہیا کرنے کی سکت رکھتا ہے۔ مگر NAB کے مطابق شہر کو پانی فراہمی کے لیے بچھائی گئی زیر زمین پائپ لائن چوری ہو چکی ہے۔
دوم:موجودہ دور میں بجلی ہماری ضرورت بن چکی ہے اس وقت صورت ِحال یہ ہے کہ گودار میں ہر ایک گھنٹے کے بعد 2 گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں 30جون 2016 کو بجلی اور پانی کی وزارت نے OPECپر قائم پارلیمنٹری کمیٹی کو بتایا کہ 2017 کے آخر تک ایران پاکستان کو 100 میگا واٹ بجلی فراہم کرے گا۔ لیکن گوادر پورٹ اتھارٹی نے اس کمیٹی کو مطلع کیا کہ گوادر بندرگاہ کو ایران سے ایک میگا واٹ بجلی بھی نہیں ملے گی۔ لیکن یکم ستمبر 2016 کو جناب وزیر اعظم نے اعلان فرمایا کہ ’’ گوادر پورے ملک میں سب سے زیادہ PROSPROUS شہر ہو کر اُبھرے گا۔ ذرا سوچیں بجلی کے بغیر کیا یہ ممکن ہے؟
سوم:جہاں تک تعلیمی سہولیات کا تعلق ہے تو علاقے میں سب سے بڑا سکول گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول پسنی میں واقع ہے ۔ کلاس رومز کی چھتیں بوسیدہ ہیں اُن کے گرنے کا ہروقت خطرہ اور خدشہ لا حق رہتا ہے۔ جب کبھی بجلی سکول میں آ جاتی ہے تو بجلی کی ننگی تاروں سے طلبا کو کرنٹ لگنے کے واقعات ہو تے رہتے ہیں نیز سکول میں پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے۔
چہارم:PAK BUREAU OF STATICSکے مطابق گوادر میں کل33680 گھر ہیں جن میں صرف 20% پکے ہیں۔ صرف 35 فی صد گھروں میں بجلی کی سہولت موجود ہے۔ صرف 45فی صد گھر وں میں پانی مہیا کیا جا رہا ہے اور صرف 0.86 فیصد کو کھانے پکانے کے لیے گیس فراہم کی جارہی ہے۔
پنجم: جہاں تک علاج معالجے کی سہولیات کا تعلق ہے تو علاقے میں گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی طرف سے ایک ہسپتال قائم کیا گیا ہے جو کہ پچھلے 8سالوں سے بند پڑا ہے۔ اپریل 2016ء میں جنرل راحیل شریف نے گوادر کے دورے کے دوران میں اُس ہسپتال کو فعال بنانے کے احکامات جاری کئے۔ تاحال اس سلسلے میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
قارئین! OPEC کے حوالے سے گوادر بندرگاہ کو بہت اہمیت حاصل ہو گئی ہے لیکن اس وقت اصل حال یہ ہے کہ گوادر میں زندگی کی تمام بنیادی ضروریات موجود نہیں۔ مثلاً نہ پینے کا پانی ، نہ بجلی، صحت اور علاج معالجے اور تعلیم کی سہولیات ناپید ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں گوادر کو کسی صورت میں بھی ایک خوشحال ’’شہر‘‘ کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ دراصل گوادر صرف چین کے غیر حقیقی خیالات پر قائم ہونے والا شہر ہے کیا چین وہاں پر اپنی بجلی ،پانی ، ہسپتال اور سکول لے کر آئے گا؟ آخر ہم کس کو دھوکہ دے رہے ہیں کاش ہمارے لیڈر نہ سمجھ لیں کہ:
We can fool all the people for sometime, some people all the time but not all the people all the time.
یعنی ہم تمام لوگوں کچھ عرصے کیلئے بے وقوف بنا سکتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی ہمیشہ کے لیے مگر تمام لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔