• news
  • image

اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان موجودہ تناؤ جو کہ اب کشیدگی کی وضع کردہ تشریح کی حدود سے بھی دو قدم آگے نکل چکا ہے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے اپنے پچھلے کالم کا اختتام ان اندیشوں کے ساتھ کیا تھا کہ موجودہ زمینی حقائق کی روشنی میں اس بات کے قوی امکانات پائے جاتے ہیں کہ دشمن اس دفعہ بھی اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے 1971ء کی طرح بیرونی محاذ پر یلغار کرنے سے پہلے ہمارے ملک میں ایک دفعہ پھر مشرقی پاکستان والی صورتحال پیدا کرے گا۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اس امکانی خدشے کے پیچھے آخر وہ کونسے محرکات یا نقات ہیں جنکی بنیاد پر ایسے کسی خدشے کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ درحقیقت وہ سبق ہوتا ہے جو مستقبل کے خطرات سے آگاہی دیتا ہے۔ زیادہ دور کی بات نہیں یہ اسّی کی دہائی کی بات ہے جب یونائٹیڈ سٹیٹ آف رشیا جسے سویت یونین بھی کہا جاتا تھا اپنی سرحدوں سے نکل کر افغانستان پر حملہ آور ہوا۔ نتیجہ آپ کی نظروں کے سامنے ہے یونائٹیڈ سٹیٹ آف رشیا دیکھتے دیکھتے حصوں بخروں میں بٹ گیا۔ لیکن اسکے برعکس تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ 1971ء میں جب ہندوستان مشرقی پاکستان پر حملہ آور ہوا تو وہ پاکستان توڑنے میں کامیاب ہو گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ غور سے دیکھیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جب افغانستان پر حملہ ہوا تو پورا افغانستان ایک جان ہو کر سویت یونین کے خلاف کھڑا ہو گیا افغانی اندر سے متحد ہو کر سویت یونین کے خلاف لڑے لیکن جب 1971ء میں پاکستان پر حملہ ہوا تو پاکستان اندرونی خلفشار کا شکار تھا جسکی وجہ سے وہ دشمن کا مقابلہ نہ کر سکا۔ یہی وہ مقام تھا جب امریکہ سمیت تمام سامراجی قوتوں کو یہ بنیادی نقطہ سمجھ آ گیا کہ آئندہ جس ملک کو بھی اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھانا مقصود ہو پہلے اسے اندرونی خلفشار میں مبتلا کرو باقی کام خود بخود آسان ہو جائے گا۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ امریکہ برطانیہ اور یورپ سمیت دنیا میں جمہوریت کی چمپیئن بنی بڑی بڑی حکومتیں دراصل بنچ اف ٹھگس پر مشتمل ایک مافیا ہیں جنہوں نے اپنے مفادات کے حصول اور تحفظ کیلئیے دنیا کو اپنے درمیان مختلف حصوں میں بانٹ رکھا ہے اور انکا یہ مرکزی ایجنڈا ہے کہ سوائے انکے اپنے ملکوں کے امن کسی اور ملک کا مقدر نہ ٹھہرے اس تناظر میں تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو اس ستم ظریفی کا سب سے پہلا شکار آپ کو عراق نظر آئے گا جسے اندرونی خانہ جنگی کی طرف دھکیل کر تباہی سے دوچار کیا گیا۔ ہوس پرستی میں عراق کے بعد لیبیا کو اگلا ہدف بنانا اور قذافی کے ساتھ وہی ڈرامہ کھیلا جانا جو صدام کے خلاف کھیلا گیا وہ بھی اب کسی سے پوشیدہ نہیں۔ لیبیا کے بعد اگر آجکل شام بھی اْنہی حالات سے گزر رہا ہے تو اسکے پیچھے بھی ان سامراجی قوتوں کا وہی فلسفہ کام کر رہا ہے کہ جب تک یہ ملک اندرونی خلفشار کا نشانہ نہیں بنتے انکا استحصال مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ شام کے ساتھ ساتھ کچھ اس قسم کی صورتحال حالیہ دنوں ترکی میں بھی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ مڈل ایسٹ کی اس ساری صورتحال کی سمجھ تو آتی ہے کہ اس خطے میں تیل اور اسرائیل دو ایسے ایشو ہیں جو امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی دلچسپی کا محور ہیں لیکن وہ کونسے عوامل ہیں جو ان طاقتوں کو پاکستان کے خلاف سازشوں پر اْکسا رہے ہیں تو دوستو یہ ایک زمینی حقیقت ہے کہ جسطرح چین اپنی سرحدوں سے نکل کر اور روس اپنی پرانی حثیت بحال کرنے کے چکروں میں پڑا ہے اگر یہ دونوں ملک اپنے ارادوں میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر امریکہ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کا دنیا کے استحصال کا خواب ایک خواب ہی رہ جائیگا لہذا یہ اب امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی مجبوری بن گئی ہے کہ چین پاک چائنہ اکنامک کا ریڈور کے ذریعے گرم پانیوں تک رسائی کے جو منصوبے بنا رہا ہے اسے اس پیش بندی سے کیسے روکا جائے۔ اس کھیل کو کھیلنے کیلئے امریکہ اور اسکے حواریوں کیلئے واحد سہارا صرف ہندوستان ہے جسکے ذریعے وہ چین اور پاکستان کو انگیج کر سکتے ہیں اور اْنھوں نے اس سلسلے میں اپنے گیم پلان پر کا م شروع کر دیا ہے۔ یہ بات اب کسی سے پوشیدہ نہیں کہ کراچی کے حالات کس ملک سے کنٹرول کیئے جاتے ہیں جسکے ٹھوس شواہد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اْس ملک میں رہنے والے ایک ایسا شخص جسکے خلاف تمام قانونی ثبوت موجود ہونے کے باوجود وہاں کا جوڈیشل سسٹم ابھی تک اسکے خلاف کاروائی سے گریزاں ہے کس آزادی کے ساتھ پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہا ہے۔ شائد پاکستان کو اندرونی خلفشار میں مبتلا کرنے کے گیم پلان کی ہی یہ ایک کڑی تھی جب 22 اگست کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک مخصوص تقریر کے ذریعے کراچی کو خون میں نہلانے اور پاکستان کو اندرونی خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی مذموم کوشش کی گئی وہ تو الّلہہِ بھلا کرے اس فیصلہ ساز کا جس نے تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے محتاط رد عمل اپناتے ہوئے کسی انتقامی کاروائی سے گریز کر کے اس چال کو ناکام بنا دیا۔ کراچی کی صورتحال تو اب سب پر واضع ہو گئی کلبھوشن یادیو کے روپ میں بلوچستان میں دہشتگردی اور بدامنی پھیلانے کے منصوبوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی کا کردار اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہا۔ میں صرف اتنا کہونگا مشتری ہوشیار باش ہمارے دشمن کے اپنے کئی ناموں کی طرح کئی روپ ہیں جب وہ اپنے آپ کو بھارت کہلاتا ہے تو وہ امن کی باتیں کرتا ہے جب وہ اپنے آپ کو انڈیا کہلاتا ہے تو یلغار کی باتیں کرتا ہے اور جب وہ اپنے آپ کو ہندوستان کہلاتا ہے تو پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی سوچتا ہے۔ دشمن کے اس آخری روپ پر جب غور کرتا ہوں تو پھر اہل وطن کو یہی کہنا چاھتا ہوں کہ جب تک تم ٹکڑوں میں بٹنے سے بچے رہو گے کوئی تمہاری طرف میلی انکھ سے نہیں دیکھ سکے گا بس اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اسی میں تمہاری بقاء ہے۔

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

epaper

ای پیپر-دی نیشن