عمران خان کا اسلام آباد کو بند کرنا مشکل ہے
30 ستمبر کو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے رائے ونڈ میں اڈا پلاٹ پر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پانامہ لیکس کے معاملے پر اداروں نے وزیراعظم نواز شریف کا احتساب نہ کیا تو محرم کے بعد نواز شریف حکومت نہیں چلنے دیں گے۔ عمران خان کا یہ کہنا کہ محرم الحرام کے بعد اسلام آباد بند کر دیں گے تو اس قسم کے رویے کو کسی صورت درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پاکستان تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اور اسے اپنی سیاسی اور آئینی جدوجہد جمہوری معاشرے میں جاری رکھنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ اب تو پانامہ لیکس کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اس لئے انہیں سپریم کورٹ کے فیصلے تک انتظار کرنا چاہئے اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ پانامہ لیکس کا ایشو ای اوپن اینڈ شٹ کیس ہے تو سپریم کورٹ کو اس بارے زیادہ سے زیادہ ثبوت اور شواہد فراہم کریں تاکہ اصل حقائق عوام کے سامنے آسکیں۔ پرامن احتجاج ایک جمہوری عمل ہے اور یہ سب کا حق ہے اس لیے تحریک انصاف جو 30 ستمبر کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسے کرنے کی دعویدار ہے کو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور حکومت پر پانامہ لیکس کی تحقیات کے لئے ٹی او آر طے کرنے کے لئے دوبارہ اجلاس فوری طور پر بلان کے لئے زور ڈالنا چاہیے تاکہ تمام فریقین کا اتفاق رائے سے مستقل بنیادوں پر ایک ایسا ادارہ تشکیل دیا جائے جو نہ صرف پانامہ لیکس بلکہ اس قسم کے تمام کیسز کی چھان بین پھٹک کرے۔ اگر ایسا ہو گیا تو عمران خان کا اس قوم پر ایک احسان ہو گا۔ عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ہم نواز شریف کو محرم تک کا وقت دے رہے ہیں کہ وہ خود کو احتساب کے لئے پیش کریں‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر پاکستانی ادارے نواز شریف کی کرپشن کے خلاف ایکشن نہیں لیتے تو محرم کے بعد ہم نواز شریف کو حکومت نہیں کرنے دیں گے‘ محرم کے بعد اسلام آباد بند کر دیں گے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہم نے بہت بڑا جلسہ کیا ہے آج کے بعد نواز شریف کے خلاف کوئی جلسہ نہیں ہو گا اب ’’کچھ اور ہو گا‘‘ اگر ہم سرحد کے قریب نہ ہوتے تو میں نے آپ کو آج یہیں روک دینا تھا لیکن جو سرحد پر حالات ہیں میں نہیں چاہتا کہ فوج کے لئے مسئلہ ہو۔ جمعہ کی شب جاتی عمرہ کے قریب اڈہ پلاٹ پر جلسہ عام سے انہوں نے نریندر مودی کو بھی کھری کھری سنائیں کہ سوچو بھی نہ کہ تم پانی بند کر دوں گے اور ہم چپ کر بیٹھے رہیں گے‘ پاکستان کا ہر بچہ تمہارا مقابلہ کرنے کو تیار ہو گا‘ اس سے نقصان بھارت کا ہی ہو گا‘ کشمیریوں کو ان کا حق دو۔ عمران خان کے خطاب کے ردعمل میں سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا کہ یاد رہے کہ رواں برس 15 اگست کو تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وزیراعظم نواز شریف کو بحیثیت رکن اسمبلی ناقابل قرار دینے کیلئے ریفرنس دائر کیا تھا۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی‘ رکن اسمبلی شیریں مزاری اور ڈاکٹر عارف علوی نے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کو وزیراعظم کی نااہلی کیلئے درخواست جمع کروائی تھی۔ پی ٹی آئی میڈیا ونگ کی جانب سے جاری کئے گئے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ پانامہ لیکس میں وزیراعظم نواز شریف کے اہلخانہ کا نام آنے پر پی ٹی آئی جو تحریک چلا رہی ہے‘ ریفرنس بھی اسی کا حصہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جمہوریت یا وزیراعظم کو کوئی خطرہ نہیں۔ یہ سسٹم اسی طرح قائم رہے گا۔ عمران خان کی خواہش پر سسٹم تبدیل نہیں ہو گا وہ اسلام آباد بند نہیں کر سکی گے۔ عمران خان کے خطاب کے بارے میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی موجودگی میں پاکستان کے استحکام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا‘ کچھ لوگ ان پر بلاوجہ یلغار کرتے ہیں‘ عمران خان کو پتہ ہونا چاہیے کہ پاکستان کے عوام دھرنا دینے والوں کے ساتھ نہیں بلکہ نواز شریف کے ساتھ ہیں۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ عمران خان نے اسلام آباد بند کرنے کی بات کی ہے لیکن ان کو کامیابی نہیں ہو گی۔ عمران خان پورا زور لگا کر بھی بیس ہزار لوگ اکٹھے کر سکے‘ ان کو الیکشن 2018ء کا انتظار کرنا چاہیے۔ وفاقی وزیر مملکت برائے پانی و بجلی چودھری عابد شیر علی کا کہنا ہے کہ عمران خان جتنا مرضی زور لگا لیں ہم اسلام آباد کو بند نہیں ہونے دیں گے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ وزیراعظم نواز شریف کے سب سے بڑے ناقد عمران خان نے رائے ونڈ لاہور میں جلسہ کیا جو عددی اعتبار سے بہت بڑا اور پرامن احتجاجی اجتماع تھا۔ انہوں نے بجا طور پر بھارتی وزیراعظم کو للکارا اور قوم کی طرف سے انہیں سخت پیغام دیا ہے۔ عمران خان نے وزیراعظم پر پانامہ لیکس کے حوالے سے بھی کڑی تنقید کی جوکہ ان کا آئین کے تحت جمہوری حق بھی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے اس عدیم المثال اجتماع کا کریڈٹ وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز کی قیادت میں صوبائی حکومت کو بھی جاتا ہے‘ جنہوں نے ملک کی مخدوش صورتحال میں بغیر کسی رکاوٹ کے اجتماع ہونے دیا اور اسے بھرپور فول پروف سکیورٹی بھی فراہم کی اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی حدود قیود متعین ہیں۔ اپوزیشن کو مثبت طرز فکر اور سوچ کا مظاہرہ کرنا چاہیے جبکہ مثبت اور معیاری تنقید کو حکومت کو نہ صرف یہ کہ برداشت کرنا چاہیے بلکہ اپوزیشن کے جائز تحفظات کا ازالہ بھی کرنا چاہیے اور خرابیوں کو دور کرکے اچھی حکمرانی کو فروغ دینا چاہیے۔ پانامہ لیکس کا معاملہ الیکشن کمشن میں بھی ہے اور عدلیہ میں بھی‘ پارلیمنٹ میں بھی اس پر بات ہو رہی ہے اور سینٹ میں بھی یہ معاملہ کمیٹی کے سپرد کیا جا چکا ہے۔ حکومت بالخصوص وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کی نزاکت کو سمجھیں اور قانون اور آئین کی پاسداری کو فروغ دیں‘ خواہ وہ خود ہی اس کی گرفت میں کیوں نہیں آتے‘ وہ خود کو سپریم کورٹ‘ الیکشن کمشن کے روبرو بھی پیش کریں‘ صفائی دیں اور پارلیمنٹ میں سامنا کریں‘ اگر ان کے ہاتھ صاف ہیں تو انہیں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم عمران خان سے کہیں گے کہ وہ اسلام آباد بند کرنے کی کال نہ دیں بلکہ جو اندرونی خطرات سے بھی دوچار ہے ایسے دھرنوں اور احتجاج کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ امر واقعہ ہے کہ حکومتی مشینری کو جام کرنا اور دارالحکومت میں شہری آزادیوں‘ کاروباری سرگرمیوں اور نظام زندگی کو تلپٹ کرنا دانشمندی نہیں ہے‘ نہ ہی اسے ملک کی خدمت قرار دیا جا سکتا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھ کر اس کا آبرومندانہ حل تلاش کریں‘ تحریک انصاف کے قائد عمران خان اگر محرم الحرام کے بعد اسلام آباد کے گھیراؤ کی دھمکی پر واقعی سنجیدہ ہیں تو اس سے مسائل ضرور پیدا ہوں گے۔ ہمارے تئیں تحریک انصاف کو وفاقی دارالحکومت کے گھیراؤ جیسے فیصلوں سے احتراز کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں ان کا سابقہ تجربہ بھی کچھ خوشگوار نہیں رہا ہے۔ اس لیے مصلحت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اسے نہ دہرایا اور ایشو بنایا جائے۔عمران خان آئے روز اسلام آباد کو بند کرنے کے اعلانات تو کر رہے ہیں لیکن وہ اسلام آباد کو اس لیے بند نہیں کر سکتے کہ عوام کی اکثریت اور اپوزیشن جماعتیں ان کے ساتھ نہیں ہیں۔