• news
  • image

ڈاکٹر ثریا احمد کی رحلت

16 ستمبر کو ڈاکٹر ثریا احمد بھی ہم سے بچھڑ گئیں۔ ڈاکٹر ثریا احمد لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی میں پنجابی کی پروفیسر تھیں۔ آپ طویل عرصہ شعبہ پنجابی کی سربراہ رہیں۔ 2008ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی Contract پر ان کی سروس جاری رکھی گئی۔ ڈاکٹر ثریا احمد کی رہائش دل محمد روڈ پر تھی۔ آپ کا تعلق تعلیم یافتہ فیملی سے تھا۔ آقا بیدار بخت آپ کے قریبی عزیز تھے۔ انہوں نے سید ہاشم شاہ پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے شادی نہیں کی۔ بھتیجے، بھتیجیاں، بھانجے اور بھانجیوں کے تعلیمی اخراجات پورا کرتی رہیں۔ آپ دوسروں کی مدد کر کے خوشی محسوس کرتی تھیں۔ لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی کی سٹوڈنٹ روبینہ کرمانی نے ایم ایس (ایم فل) کا مقالہ لکھا۔ عنوان تھا ’’تنویر ظہور دیاں پنجابی ادبی خدمتاں‘‘ اس مقالے کی نگران ڈاکٹر ثریا احمد تھیں۔ ازاں بعد یہ مقالہ کتابی صورت میں زیور طباعت سے آراستہ ہوا۔ اس کا فلیپ ڈاکٹر ثریا احمد نے لکھا۔انہوں نے لکھا ’’روبینہ کرمانی نے میری نگرانی میں تنویر ظہور کی پنجابی ادبی اور صحافتی خدمات کے بارے میں تحقیقی مقالہ تحریر کیا۔ انہوں نے مقالے میں تنویر ظہور کا کوئی بھی علمی، ادبی اور صحافتی پہلو ادھورا نہیں چھوڑا۔ روبینہ کرمانی نے محنت سے مقالہ لکھا۔ انہوں نے مقالے میں ترکیبیں، استعارے اور تشبیہات کو خوبصورت انداز میں استعمال کیا ۔ روبینہ کرمانی کے تحقیقی کام کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ تحقیق کے ساتھ تنقید بھی بہت عمدہ ہے‘‘
ڈاکٹر ثریا احمد سے میری ملاقات تو نہ ہو سکی البتہ کبھی کبھار فون پر پنجابی زبان و ادب کے حوالے سے گفتگو ہو جاتی۔ روبینہ کرمانی نے مجھے بتایا کہ ڈاکٹر ثریا احمد درویش خاتون تھیں، انتہائی سادہ زندگی بسر کی۔ نمود و نمائش سے دور رہیں۔ انہیں نہ صرف پنجابی بلکہ اردو ادب پر بھی عبور تھا۔ ایم اے پنجابی کے علاوہ انہوں نے ایم اے (اردو) کیا۔ ابتدا میں وہ اردو پڑھاتی رہیں۔مقالے کے دوران انہوں نے میری پوری رہنمائی کی۔ سٹوڈنٹس کے ساتھ ان کا رویہ مشفقانہ رہا۔ وہ چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا تھیں۔ کسی بھی موضوع پر ان سے گفتگو کی جاتی تو وہ پوری معلومات دیتیں۔ ان دنوں لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی کے شعبہ پنجابی کی صدر ڈاکٹر ثمینہ بتول ہیں۔ ان کو ڈاکٹر ثریا احمد کے ساتھ پڑھانے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر ثریا احمد کے بارے میں اپنے تاثرات میں ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ثریا مخلص دوست، ملنسار، باکردار، بارعب، مہربان، شفیق اور نیک خاتون تھیں۔ وہ 11 نومبر 1948ء میں پیدا ہوئیں۔ وفات کے وقت ان کی عمر 68 برس تھی۔ 1972ء میں انہوں نے لاہور کالج میں بطور لیکچرر ملازمت اختیار کی۔ پنجابی زبان و ادب کے فروغ کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ پنجابی زبان سے ان کو عشق کی حد تک پیار تھا۔ وہ کہا کرتیں کہ میری ابتدا پنجابی اور انتہا بھی پنجابی ہے۔ پنجابی میں پی ایچ ڈی کرنے والی چند ابتدائی خواتین میں ڈاکٹر ثریا احمد کا شمار ہوتا ہے۔ وہ ایک ادارہ تھیں۔ اپنی سٹوڈنٹس کی علمی، ادبی، ذہنی اور اخلاقی تربیت کی اور ان کی ترقی کے لیے ہمیشہ دعاگو رہتیں۔
ڈاکٹر نبیلہ رحمن اورینٹل کالج (پنجاب یونیورسٹی) میں شعبہ پنجابی میں سینئر پروفیسر ہیں۔ ڈاکٹر ثریا احمد سے ان کا قلبی تعلق رہا۔ ڈاکٹر نبیلہ رحمن کی والدہ کا نام ثریا ہے۔ اس ناتے وہ ڈاکٹر ثریا احمد کو اپنی ماں کا درجہ دیتی ہیں۔ ڈاکٹر نبیلہ رحمن کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ثریا احمد نے لاہور کالج کے شعبہ پنجابی کو مضبوط کیا اور پروان چڑھایا۔ شعبے کی دیگر اساتذہ کی خیر خواہی اور حوصلہ افزائی کرتی رہیں۔ وہ کالج میں پراکٹر (Proctor) بھی تھیں۔ درس و تدریس کے علاوہ وہ کالج کے انتظامی امور بھی سرانجام دیتی رہیں۔ اپنے Subject پر انہیں عبور حاصل تھا۔ مجلسی حوالے سے بھی وہ زبردست خاتون تھیں۔ استاد، محقق کے ساتھ ساتھ وہ رائٹر بھی تھیں۔ پروفیسر رمضان شاہد، دیال سنگھ کالج میں شعبہ پنجابی کے سربراہ رہے۔ پروفیسر رمضان شاہد اور ڈاکٹر ثریا احمد کا لیکچرر شپ اور ریٹائرمنٹ کا سال ایک ہی ہے۔ پرچوں کی مارکنگ کے سلسلے میں بھی ان دونوں کی ملاقاتیں رہیں۔ رمضان شاہد اسلامیہ کالج میں میرے کلاس فیلو رہ چکے ہیں۔ ان کے نزدیک ڈاکٹر ثریا احمد سنجیدہ خاتون تھیں۔ شور اور ہنگامہ انہیں پسند نہ تھا بطور پراکٹر بھی انہوں نے کالج میں ڈسپلن قائم رکھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کالج میں پڑھاتی رہیں۔ حلیم طبع خاتون تھیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن