بھارتی اکھنڈ کا پاکھنڈ
دنیا نے سمٹ کر ایک گاؤں کا روپ دھار لیا ہے۔ دنیا کو اگر تالاب سمجھیں تو ہم سب اس میں رہنے والی مچھلیاں ہیں اور دنیا اس بات پر بھی متفق ہے کہ ایک مچھلی بھی سارے تالاب کو خراب کو سکتی ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ قبل مسیح کے دور سے بھی پہلے ہابیل اور قابیل کے زمانے سے لمحہ موجود اور آخر زمان تک پہلی دوسری جنگ عظیم سے لیکر تیسری عالمی جنگ تک، مسیح موعود سے لیکر ہنود و یہود کے گٹھ جوڑ تک عالمی امن کو خطرہ ہمیشہ ایک انتہا پسند حاکم کی غلط حکمت عملی سے ہوتا ہے۔ مثلاً ہٹلر، مسیولنی، سکندر اعظم، چنگیز خان، ہلاکو خان، امیر تیمور، نپولین وغیرہ ماضی قریب میں بش سنئیر نے محاورتاً نہیں حقیقت میں ایک خواب دیکھا، جسکی تعبیر کی تکمیل کے حصول کیلئے وہ افغانستان، عراق اور شام کے علاوہ لیبیا، پاکستان پر پل پڑا اور لاکھوں مسلمانوں کو خاک و خون میں غلطاں کر دیا۔ اس دن سے پوری دنیا کا امن داؤ پہ لگا ہوا ہے۔ جہاں تک اوبامہ کا تعلق ہے تو اس دیس کے پالیسی ساز اگر ویٹو کا اختیار صدر کو دیتے ہیں تو استعمال کرنے کا گُر شیر کی خالہ اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے۔ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے نتیجے میں مرنے والوں کے لواحقین کو معاوضہ دینے کی بازگشت اور شوشہ کچھ عرصہ قبل ایک منصوبے کے تحت چھوڑا گیا تھا، جسکی بھنک شاہ سلیمان تک دانستہ پہنچائی گئی۔ جس کا شدید رد عمل ہوا اور انہوں نے دھکمی دی کہ سعودی عرب اپنا پیسہ امریکہ کے بنکوں سے نکلوا دے گا۔ امریکی وزارت خارجہ نے اس پر کوئی تبصرہ کیا نہ رائے دی البتہ خاموشی سے اس مسئلے کو اپنی پارلیمان میں پیش کر دیا اور پھر بھاری اکثریت سے منظور کر کے اسکا سارا بوجھ اپنے کاندھے سے اتار کر واشنگٹن سے ریاض منتقل کر دیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 575 بلین ڈالر سعودی عرب کے امریکن بینکوں میں ہیں اب یہ عمل ایسا ہے کہ اس پر تبصرہ آرائی بھی محاذ آرائی کے مترداف ہے۔ مگر کم از کم عربوں نے پنجابی کی اس کہاوت کو غلط ثابت کر دیا ہے کہ’’جبکے گھر دانے اسکے کملے بھی سیانے‘‘ مسلمانوں کو اپنا ایک بنک بہت پہلے بنا لینا چاہئیے تھا، آغا حسن عابدی نے بی پی سی پی بنایا تھا۔ مگر نہایت کامیاب اور سوچی سمجھی سازش کے تحت عالمی طاقتوں نے اسے ڈبو دیا، جسکے غم میں عابدی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ادھر کشمیر، فلسطین، شام، لیبیا، عراق، افغانستان میں آخر کونسی طاقت مصروف عمل ہے، جسکی بلواسطہ آشیر باد سے ظالموں نے عالمی امن کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے۔ بقول مظفر علی شاہ، جسکا نصب العین اور خارجہ پالیسی کی خشت اول پر ہی یہ کندہ ہے کہ
گنگاروں کو دیں خلعت
مسیحاؤں پہ تعزیریں!
نبھاہیں خوب رشتے کو
جنوں کے ساتھ زنجیریں!
اوبامہ کے ویٹو ڈرامے سے مسلم ممالک کو شدید دھچکا لگا اور عرب ممالک کا امریکہ پر غیر متنزل اعتماد مجروح ہوا۔ حالانکہ شاہ ایران، شاہ فیصل، قذافی، صدام حسین وغیرہ کی مثال پہلے سے موجود تھی۔ اب امریکہ کو تیل کی سپلائی بند اور مصنوعات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کر کے اپنے زخموں کو مندمل کرنے کے لئے مرہم پٹی کی جائیگی۔ امریکہ میں تو سوائے اسلحے کے اور کچھ بنتا ہی نہیں۔ کچھ عرصے پہلے امریکی سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری نکالنے اور جائیدادیں فروخت کرنیکی دھمکی کے جواب میں کانگریس نے کہہ دیا تھا کہ اگر دوبارہ ایسی بات کی تو 9/11 کی ذمہ داری سعودی عرب پر عائد کر دی جائیگی، سعودی عرب میں حفاظت کے نام پر خطیر رقم لیکر امریکی فوج پہلے سے وہاں مقیم ہے۔ گو اب اس میں خاصی کمی آگئی ہے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ سعودی عرب کی پیٹھ میں امریکہ نے چھرا گھونپا ہے، سعودی عرب اور پاکستان آپس میں دنیاوی اور روحانی رشتوں کے بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں اور مدینہ منورہ میں دہشت گردی کے بعد حفاظتی ذمہ داریاں بھی پاکستان کو سونپ دی گئی ہیں۔ اس لئے امریکہ، بھارت کو فرنٹ پر رکھ کر استعمال کر رہا ہے اور کشمیر میں منافقت کا کھیل کھیل کر کہتا ہے کہ یہ دو ممالک کا اندرونی معاملہ ہے اور بھارت سے دانستہ، علاقے کا امن خراب کرنے کے لئے اشتعال انگیزی کرا کے سعودی عرب کے دیرینہ دوست کو تنگ کر کے سی پیک کو’’پیک‘‘ کرانے کا متمنی ہے۔ اس لئے اب ایران سے تیل لینے کی بات کرتا ہے۔ مودی کو سی پیک کا مروڑ جینے نہیں دیتا۔ کبھی وہ اچانک پاکستان کبھی ایران، کبھی امریکہ، اور کبھی چین جا کر انہیں اقتصادی راہداری بند کرنیکی التجا کرتا ہے اور کھلے عام بلوچستان میں مکتی باہنی والا کردار ادا کرنیکی دھمکی دیتا ہے۔ حالانکہ وہ خود ناگالینڈ سے حیدرآباد دکن اور کشمیر تک لوگوں کی آزادی کی آرزو کو بم اور بندویق سے روکنے کے جتن کر رہا ہے۔
ہمیں سرجیکل سٹرائیک کے چکر میں پڑنے اور اپنی ساری صحافیہ قوتوں کو استعمال کر کے کشمیر کے اصل ایشو کو پس پشت لیجانے کی کوششوں میں صرف نہیں کرنا چاہئیے۔ ہزاروں سال پہلے اسلامی ملک کے حکمران کو کھلے عام ایک بڑھیا نے کہا تھا کہ اگر دور دراز علاقے میں امن و امان برقرار نہیں رکھ سکتے تو تمہیںحکمرانی کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ اکھنڈ بھارت کے شوق میں مودی کا حالیہ پاکھنڈ، اور سرحدی علاقے سے لاکھوں لوگوں کی نقل مکانی کسی دیرپا موذی منصوبے کا حصہ تو نہیں؟ اسلئے تو میں بقول نیر…
جو سوچتا رہتا ہوں
کاغذ پر اتر آئے
آنکھوں میں سکوت ایسا
اظہار سے ڈر آئے
؎