• news
  • image

اخوت کی جہانگیری حجاز کا مجاز غیرت کا غرور

ڈاکٹر امجد ثاقب فلاح و بہبود کے کاموں میں اتنا آگے بڑھ گیا ہے ان کی فلاحی تنظیم کا نام ’’اخوت‘‘ اب غریب اور بے آسرا خواتین و حضرات اور طلبہ و طالبات کی آنکھوں میں چمکتا ہے۔ ایسے لگتا ہے اخوت والے خود مستحق لوگوں کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ یہ اظہار بچوں نے کیا کہ ہمیں خود سکالر شپ کی اطلاع دی گئی اور ہم اخوت کے لشکر میں شامل ہو گئے اور فاتح ہوئے۔ ایسے لگتا ہے کہ ڈاکٹر امجد ثاقب اس کا دردمند بھائی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایم بی بی ایس کیا اور پھر سول سروس کا امتحان پاس کرکے ڈی ایم جی گروپ میں آ گئے۔ جب وہ اسسٹنٹ کمشنر چنیوٹ تھے تو ہم نے ایک بہت بڑا مشاعرہ دریا کے کنارے ان کی نگرانی میں پڑھا تھا۔ میں نے اس مشاعرے کی کمپیئرنگ کی تھی۔
کل کسی ٹی وی چینل پر بچیاں شمسہ اور فائزہ بچے جنید اور ظہیر باتیں کر رہے تھے کہ میرا دل جھوم رہا تھا۔ وہ روشنیاں تقسیم کرنے والا ہے اور میں یہ الفاظ روحانی روشنائی سے اس کے لئے لکھ رہا ہوں۔ ایک بچی جو پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتی ہے کہنے لگی ہم اتنے غریب تھے کہ میں کھیتوں میں اپنے والد کے ساتھ کام کرتی تھی۔ ایک بچہ کہنے لگا کہ میں نے کئی سال تک مزدوری کرکے گھر کا کام چلایا۔ مگر ’’اخوت‘‘ والوں نے خود ہمیں تلاش کیا اور بغیر کسی پریشانی کے سکالر شپ مل گیا۔
ایسی چنگاری بھی یا رب میری خاکستر میں تھی
پنجاب گورنمنٹ نے اس اعلیٰ مقصد کے لئے انڈونمنٹ فنڈ جاری کیا۔ اس میں دفتری رکاوٹوں کو قریب نہ آنے دیا گیا۔ سب نے ڈاکٹر امجد ثاقب کو شہباز شریف کے ساتھ دیکھا تو مجھے دونوں اچھے لگے جبکہ حکمرانوں کے قرب سے میں گھبراتا ہوں۔ ’’اخوت‘‘ کی جانب سے بلاسود قرضے بھی دئیے گئے اور مدد بھی کی گئی۔ ایک بچی نے کہا کہ یہ میرے لئے غیب کی امداد کی طرح تھی۔ میری زندگی اچانک میرے دل کی مرضی کی طرح میرے راستے میں کھڑا مسکرا رہی تھی۔ میں نے ’’اخوت‘‘ کی ایک تقریب میں گورنر ہائوس میں کہا
میں نے ڈاکٹر امجد ثاقب سے قرضہ نہیں لیا مگر میں اپنے آپ کو ڈاکٹر صاحب کا مقروض سمجھتا ہوں۔ آج میں نے اخبار میں ماروی میمن کا ایک جملہ پڑھا جو انہوں نے اکادمی ادبیات اسلام آباد کے ایک اجلاس میں مہمان خصوصی کے طور پر اپنی تقریر میں کہا۔
’’جہاں بندوق سے کام نہیں چلتا اہل قلم کی تحریریں اپنا جادو دکھاتی ہیں۔‘‘ بگھیو صاحب کو ایسی تقریبات کراتے رہنا چاہئیں۔
یہ تقریب آغا خالد سلیم کی یاد میں رکھی گئی تھی۔ آغا صاحب نے سندھ کی دھرتی کو شعور دیا۔ ادبی تقریبات میں ماروی میمن کی شرکت خوش آئند ہے۔ وہ لاہور میں بھی آئیں۔ یہاں بھی اکادمی ادبیات بہت کام کر رہی ہے۔ ڈائریکٹر محمد عاصم بٹ ہیں۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد جمیل ادیبوں میں بہت مقبول ہیں اور بہت کام کر رہے ہیں۔
’’صدر‘‘ زرداری نے بڑی جرات مندی سے کہا ہے کہ اب غیرت کے نام پر قتل کرنے والا مذہب کے پیچھے نہیں چھپ سکتا۔ کسی عورت نے کوئی ایسا جرم کیا ہے تو مرد بھی اس میں برابر کا شریک ہے اور اس کی سزا خدا اور خلق خدا کے محبوب حضرت محمدالرسول اللہ نے سنگساری مقرر کی ہے اور مرد ہمیشہ کیوں بچ جاتے ہیں۔ عورت کمزور اور بے بس ہے اس لئے غیرت مند بھائی یا باپ کا بس صرف اپنی کمزور بیوی بہن اور بیٹی پر چلتا ہے۔ اس کی کوئی تحقیق بھی نہیں کی جاتی اور قانون کے مطابق کوئی کارروائی نہیں ہونے دی جاتی۔ قاتل غازی بن جاتا ہے۔ انصاف میں بے شمار تاخیر ہوتی ہے۔ قاتل کو بچانے کے لئے معاہدے ہوتے ہیں اور اکثر اوقات قاتل کے رشتہ دار اپنی بیٹیوں اور بہنوں کے رشتے قاتل کے رشتہ داروں سے کر دیتے ہیں اور مظلوم بننے والے لوگ ڈھول باجے بجاتے ہوئے ڈانس کرتے ہوئے بارات لے کے جاتے ہیں۔ قاتل کو بچانے کے لئے یہ کون سی غیرت مندی ہے جو عورت قتل ہوئی ہے اس کے لئے کیا ہو گا۔ قاتل اور مقتول پھر سے شیر و شکر ہو جاتے ہیں۔ یہ کس غیرت کا مظاہرہ ہے۔
آج کے اخبار میں ’’صدر‘‘ زرداری کے بیان کے ساتھ ایک خبر یہ بھی ہے کہ غیرت کے نام پر ایک عورت کو قتل کر دیا گیا۔ اس میں کسی مرد کے قتل کی بات نہیں ہے۔ قاتل سے پوچھا جائے کہ جس نے آپ کو قتل پر مجبور کیا ہے وہ تو زندہ ہے۔ قتل کا مقدمہ بھی آپ کے خلاف درج ہوا ہے تو کیا آپ تھانے میں پیش ہونے سے پہلے غیرت کے نام پر اس مرد سے بھی بدلہ لیں گے جس نے آپ کی غیرت کو تارتار کیا ہے؟
یہ معاملہ بالکل بے معنی اور ظالمانہ ہے جس آدمی نے قتل کیا ہے وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ دے کہ اس نے زندگی میں کوئی گناہ نہیں کیا۔ حضرت یسوع مسیح روح اللہ نے کہا تھا مجھے پتھر مارو مگر پہلا پتھر وہ مارے جس نے عمر بھر کوئی جرم نہ کیا ہو۔ جہالت اور بربریت کی فطرت نے ہمارے معاشرے کی چولیں ڈھیلی کر دی ہیں۔ ’’صدر‘‘ زرداری کی خدمت میں عرض ہے کہ قانون بن جاتے ہیں پھر اس قانون کو توڑنے والے بھی آ جاتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے کہاں ہیں۔ غیر قانونی معاملات کے لئے تنقید کرنے والے کیوں سوئے ہوئے ہیں۔ المناک اور شرمناک بات یہ ہے کہ اس معاملے میں کبھی اس مرد کا کوئی ذکر نہیں آتا جو بے غیرتی کا سبب بنتا ہے۔ اس موضوع پر لکھتے ہوئے میرا دل کانپ رہا ہے۔ میرے ہاتھ میں قلم کانپ رہا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کی خبریں جس طرح اچھالی جاتی ہیں وہ بھی المیہ ہے۔ اس تمام واقعے کے لئے کوئی ضابطہ اخلاق بنانے کی ضرورت ہے۔ اللہ کرے نیا قانون بن جانے کے بعد ظلم کے ضابطے ختم کئے جائیں۔ میں تو صرف یہ کہتا ہوں کہ ظلم کے ضابطے ہم نہیں مانتے۔
یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ ایک خبر کے مطابق قتل کے ایک ملزم غلہ منڈی ساہیوال کے اعجاز حسین شاہ کو پندرہ سال کی قید کے بعد سپریم کورٹ نے رہا کر دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ عدم شواہد اور ضروری قانونی معاملات پورے نہ ہونے کی وجہ سے ملزم کو بری کیا گیا ہے۔ قتل کے مقدمات کا یہ حال ہوتا ہے تو غیرت کے نام پر قتل کرنے والے کے ساتھ کیا ہو گا؟
میرے خیال میں ایک تجویز ہے میں قانون کی باریکیاں تو نہیں سمجھتا مگر میری بات پر غور کر لیں۔ جب کہیں پر کوئی قتل ہوتا ہے تو سب لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ قاتل کون ہے۔ ماحول بھی جذباتی ہوتا ہے۔ موقع واردات پر فوری طور پر ڈی سی او، ڈی پی او، سیشن جج، ایس ایچ او اور شہر کے معززین اور پڑوس کے لوگ پہنچ جائیں تو فوراً قاتل کا پتہ چل جاتا ہے۔ فوری طور پر قاتل کو گرفتار کرکے اسے سزا دلوائیں اس میں صرف چند دنوں میں فیصلہ کر دیا جائے گا۔ ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ وکلاء بحث کرتے ہیں۔ دونوں طرف کے وکلا سمجھتے ہیں کہ وہ سچے ہیں۔ دونوں سچے نہیں ہو سکتے۔ یہ ایک مذاق ہے۔ پھر تو پندرہ سال کے بعد فیصلہ ہو گا۔ ملزم مجرم ہے یا مجرم نہیں ہے۔ ہم ملزم اور مجرم میں فرق نہیں کرتے۔ کچھ لوگ جان بوجھ کر تاخیری حربے اختیار کرتے ہیں۔
اوکاڑہ میں نمائندہ نوائے وقت حسنین رضا کو جیل میں سونے نہیں دیا جاتا ہے۔ نوائے وقت میں خبر کے مطابق حسنین رضا کی والدہ اور بھائی کی اس کے ساتھ ملاقات نہیں ہونے دی گئی۔ مسلم لیگ ن کے کسان ونگ کے سابق جنرل سیکرٹری چودھری اصغر علی نے کہا ہے کہ جینوئن مخالفانہ خبریں لگانے والے صحافیوں کے خلاف جھوٹے مقدمات کے اندراج کا وطیرہ پولیس کو ترک کرنا چاہئے۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما عبدالقادر شاہین نے حسنین رضا کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے انصاف کے تقاضوں کا خیال رکھنے کی تلقین کی اور کہا کہ یہ بات اوکاڑہ پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے لئے خطرناک ثابت ہو گی۔ عوامی سطح پر بے باک صحافت کے لئے نوائے وقت کے کردار کو سراہا گیا۔
آج پھر مجھے اخبارات اور رسالوں میں کچھ جملوں نے روک لیا ہے مگر میں اپنے قارئین کو مزید جوش و خروش سے چلتے رہنے کی تحریک دینا چاہتا ہوں۔ غریبوں، یتیموں، بیوائوں اور بے آسرا خواتین و حضرات کے لئے بہترین مفت علاج کی سہولتیں فراہم کرنے والا ایک ہسپتال جس کا نام حجاز ہسپتال ہے اس نام سے ہی دیار حجاز کی خوشبو آتی ہے۔ حاجی انعام الٰہی اثر نے یہ ہسپتال ایک چھوٹی سی ڈسپنسری سے شروع کیا تھا۔ اس کا ایک نمائندہ رسالہ بھی ہے اور اس کا نام بھی حجاز ہسپتال ہے۔ اثر صاحب کی زندگی ہی میں مسرت قیوم اس کی چیف ایڈیٹر ہو گئی تھیں۔ ایک دفعہ معروف کالم نگار سینئر ایڈیٹوریل ایڈیٹر سعید آسی، یاسین وٹو اور راقم الحروف ان سے ملے تھے۔ مرحوم نے اپنا سب کچھ ہسپتال کے لئے وقف کر دیا تھا۔
’’حجاز‘‘ رسالے کو مسرت قیوم بہت محنت اور جانفشانی سے مرتب کرتی ہیں۔ یہ بھی ہسپتال کی طرف سے ایک خدمت ہے جو فلاح و بہبود کی طرح ہے۔ تازہ پرچے میں ایک صفحے پر کچھ جملے بہت بے قرار کرتے ہیں اور پھر سرشار بھی کرتے ہیں۔ ایسے جملے کسی کے نہیں ہوتے مگر سب کے لئے ہوتے ہیں۔ ان میں معانی کا جہان ہوتا ہے اور درد و گداز کے کئی راز چھپے ہوتے ہیں۔ یہ سب جملے غریبوں اور مزدوروں کی بے حسی کو اجاگر کرتے ہیں
مل گئی تو روزی نہ ملی تو روزہ
کچھ چیزیں بلاوجہ بھی خرید لیا کرو کہ بیچنے والے بھیک نہیں مانگتے۔
ان کا کس نے سوچا ہے جن کا مغرب کے بعد بھی روزہ ہے۔ میں جب کسی غریب کو ہنستے ہوئے دیکھتا ہوں تو یقین آ جاتا ہے کہ خوشیوں کا تعلق دولت سے نہیں ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن