مودی کا یار کون سیاسی پکنک اور زلزلہ زدگان
ہمارے سیاستدان سیاست نہیں کرتے بلکہ پکنک مناتے ہیں۔ ہمارے دوست اور سابق ایم پی نے ایک پکنک گوشہ بنوایا ہے۔ جہاں پر سیاسی جماعت کے لوگوں کو دعوت ہے کہ وزٹ کریں اور پکنک منائیں۔ میاں صاحب کا تعلق تحریک انصاف سے ہے وہ سیاست میں ہر طرح کی بے انصافی کے خلاف ہیں اب وہ ایم پی اے نہیں ہیں کہ انہوں نے الیکشن ہی نہیں لڑا وہ الیکشن میں حصہ لیں گے تو ہر صورت میں کامیاب ہونگے۔ اب بھی ان کی حیثیت ممبران اسمبلی سے بہت زیادہ ہے۔ ان کا لنگر چلتا رہتا ہے۔ ان کا ڈیرہ آباد ہے اور وہ انتہائی دوست نواز آدمی ہیں۔ سیاستدان بھی زبردست ہیں۔ سیاسی سرگرمیوں میں مثبت تفریح کا بھی خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔
بلاول بھٹو زرداری ہمیں پسند ہیں۔ وہ ہمیں اس لئے بھی پسند ہیں کہ ان کے نام کے ساتھ بھٹو اور زرداری دونوں ہیں۔ بھٹو پاکستان کا ایک بڑا وزیراعظم تھا اور آصف زرداری ایک کامیاب صدر ۔ بلاول کو ان کی تقلید میں سیاست کرنا چاہئے۔ بلاول کی ماں دو بار وزیراعظم پاکستان رہی ہیں۔ صرف اسی صورت میں بلاول کی کامیابی ہے۔
میں بلاول کو پاکستان کا ایک بڑا نوجوان لیڈر سمجھتا ہوں۔ بے نظیر بھٹو بھی سیاست میں آئی تو جواں تھیں۔ بلاول کو اللہ نے بڑی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ وہ اپنے والد صاحب سے ٹریننگ لیتے رہے تو کوئی مشکل نہ ہو گی ’’صدر‘‘ زرداری نے ابھی پاکستان نہ آ کر بلاول کو موقع دیا ہے کہ وہ اپنی جگہ بنا لیں۔
نامور صحافی دلیر انسان ضیاء شاہد نے کہا ہے کہ مسلم امہ کو شاہ فیصل جیسے حکمران اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے وزیر خارجہ کی ضرورت ہے انہوں نے دونوں شریفوں وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو پکارا ہے کہ پاکستان نیو کلیئر پاور ہے اور ایک بہت مضبوط فوج ہمارے پاس ہے تو کشمیریوں پر کیوں ظلم ہو رہا ہے۔ یہ ظلم و ستم بند کروائیں۔ ورنہ ایک طاقتور ملک ہونے کا کیا فائدہ؟
ہم بلاول بھٹو زرداری کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے پنجاب میں کائرہ کو صدر اور عزیز چن کو جنرل سیکرٹری بنایا ہے۔ دوسرے صوبوں میں بھی ایسے ہی مستند متحرک اور مخلص لوگوں کو لایا جائے۔ فیصل آباد کے بہت زبردست، بے باک اور بہادر سیاستدان رانا آفتاب کی صلاحیتوں سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے۔
پیپلز پارٹی کے سابق وزیر خارجہ اور اب تحریک انصاف کے نمبر دو رہنما شاہ محمود قریشی نے پوچھا ہے کہ یہ تو بتایا جائے کہ مودی کا یار کون ہے۔ اس سوال کا جواب شاہ محمود کی خواہش کی طرح موجود ہے کہ کاش یہ اشارہ میری طرف ہوتا۔ حالانکہ بلاول بھٹو نے مودی کے یار کیلئے بڑا واضح اشارہ کیا ہے۔!۔ اس نے نواز شریف سے صلح کر لی ہے۔ پھر بھی یہ نعرہ زندہ ہے بلکہ کچھ حلقوں میں ’’زندہ باد‘‘ ہے۔ نواز شریف یا کسی دوسرے نے اس کی تردید نہیں کی ہے۔ البتہ بلاول نے اس نعرے میں کچھ زیادہ ہی کھچائی کر دی ہے۔
اب جبکہ بلاول نے نواز شریف سے صلح کر لی ہے اس کی صلح شیخ رشید سے بھی ہو گئی ہے اور عمران خان سے بھی معاملہ چل رہا ہے۔ اب بلاول کی طرف سے نئے نعرے کا انتظار ہے؟ الطاف حسین سے بھی مشورہ ہو سکتا ہے نئے نئے روابط ہیں مگر مودی کے ساتھ پرانے تعلقات الطاف حسین کے ہیں؟ پیپلز پارٹی کے ہی ایک رہنما رحمان ملک ایک تصویر میں بہادر کشمیری رہنما یاسین ملک کی بیوی مشعال ملک کو پاکستانی پرچم کا دوپتہ اوڑھا رہے ہیں۔ ایک تو میری خواہش ہے کہ مشعال ملک اب ہمیشہ پاکستانی پرچم کا دوپٹہ اوڑھا کریں۔ وہ ایک کشمیری رہنما کی بیوی بھی ہیں انہیں کشمیری شال بھی سردیوں میں اوڑھنا چاہئیے۔ گرمیوں میں پاکستانی پرچم والا ڈوپٹہ سردیوں میں کشمیر کے نقشے والی شال۔
مشعال ملک کو رحمان ملک سے یہ تو پوچھنا چاہئے کہ وہ پاکستانی حکومت میں بھی رہے ہیں اور پاکستانی سیاست بھی کر رہے ہیں؟ انہوں نے پاکستانی پرچم والی پگڑی ایک دفعہ بھی پہنی تھی اور انہوں نے پاکستانی پرچم کی عزت و عظمت کیلئے کوئی ایک کارنامہ بھی کیا ہے؟ سوائے اس کے وہ پاکستانی حکومت کے وزیر رہے اور ان کی گاڑی پر سبز ہلالی پرچم لہرایا کرتا تھا۔ مشعال ملک سے پہلے انہوں نے ایان علی کیلئے بہت معرکہ آرائی کی تھی کبھی انہوں نے ایان علی کو بھی پاکستانی پرچم والا دوپٹہ اوڑھا تھا۔ وہ تو عام طور پر ننگے سر پھرا کرتی تھیں۔
افتخار حجاز میٹھی اور دوستانہ حقیقتوں کا آدمی ہے۔ بہت دوست دوستدار اور دوست نواز ہے اس کی اپنی خوشبو بھی بہت زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ وہ اعزاز احمد آزر کا بھائی ہے۔ وہ خوشبو بھی اس کے پاس محفوظ ہے۔ خوشبو کو سنبھال کے اور چھپا کے نہیں رکھا جا سکتا۔ مگر خوشبو میں آدمی کھو تو سکتا ہے۔
افتخار مجھے برادرم آصف محمود جاہ کے پاس لے گئے۔ ان کے گھر کوئی جلسہ ہو رہا تھا۔ وہاں خدمت خلق کے حوالے سے باتیں ہو رہی تھیں۔ خدمت خلق کا بہت بڑا حوالہ خود آصف محمود جاہ ہیں۔ وہ ڈاکٹر ہیں اور کسٹم آفیسر بھی ہیں فلاحی شخصیت بھی ہیں اسی خدمت اور اخوت کے جذبے میں پاکستان کی سیر کی ہے۔ جنگلوں، پہاڑوں، دریائوں کے کناروں، میدانوں اور دشوار گزار راستوں پر اپنی محبت کے گھر بنائے ہیں۔ اب وہاں جو لوگ رہتے ہیں وہ ڈاکٹر صاحب کو دعائیں دیتے ہیں۔ ان میں سے کسی کی کوئی ڈیوٹی لگائی جائے تو وہ اسے پورا کرنے میں سر دھڑ کی بازی لگا دے گا۔ میں نے بھی کہا کہ میری بھی ڈاکٹر صاحب کوئی ڈیوٹی لگائیں مگر گزارش ہے کہ کوئی آسان سی ڈیوٹی لگائیں۔
برادرم منشا قاضی نے سٹیج لگایا اور لفظ و معافی کے ڈھیر لگا دیئے۔ مزمل شاہ ڈاکٹر آصف کی بہت ہونہار بیٹی، شفیق صاحب اور افتخار مجاز نے گل و گلزار کھلا دئیے۔ ڈاکٹر آصف نے جو معرکہ ارائیاں کی ہیں۔ اس کی خوشبو چاروں طرف پھیل گئی ہے۔ زلزلہ زدگان کی مدد کیلئے ڈاکٹر صاحب نے جوسفر کئے جو خدمات سر انجام دیں۔ اسے سن سن کے میرے اندر زلزلوں کے لشکر گھس آئے۔
شفیق صاحب کی دوستانہ شفقتوں کے علاوہ شیخ اسحاق احمد کی محبتوں نے سرشار کر دیا۔ وہ ’’لبیک کینسر کیئر فائونڈیشن‘‘ کے فنانس سیکرٹری ہیں۔ انہوں نے مجھے ایک خوبصورت پنسل دی۔ سوچ رہا ہوں میں اس سے کونسا لفظ لکھوں جو اس عطائے دوستانہ کے لائق ہو۔ چند بادام بھی دیئے وہ تو میں نے وہیں کھالئے۔ ڈاکٹر صاحب کی بیٹی میری بیٹی ہے کہ میں بھی ڈاکٹر ہوں۔ میرے بارے میں ایک دوست نے پوچھا تھا کہ یہ واقعی ڈاکٹر ہے یا ویسا ہی ڈاکٹر ہے۔ جیسا ڈاکٹر اقبال تھا۔ تو جناب بڑے ادب سے عرض ہے کہ ڈاکٹر تو ڈاکٹر آصف محمود بھی ہیں۔ انہوں نے کسٹم کیئر ہیلتھ سوسائٹی بھی بنائی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ صرف کسٹم والوں کا علاج کرتے ہیں۔ ان کے ڈیرے پر ایک ہجوم ہوتا ہے۔ ہجوم عاشقان۔ گیارہ سال بعد کسی نے زلزلہ زدگان کو یاد نہیں کیا۔