قانون کے مطابق صحافی کا نام ای سی ایل میں ڈالا‘ تحقیقات کیلئے کمیٹی بنا دی : دفتر داخلہ
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی۔ سپیشل رپورٹ+ سلمان مسعود دی نیشن رپورٹ) وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ قومی سلامتی سے متعلق اجلاس کے غےر مصدقہ خبر کی اشاعت فوج، مسلم لیگ (ن) یا میڈیا کا نہیں بلکہ ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے کیونکہ اس خبر سے ہمارے دشمنوں کو الزام تراشی کا موقع ملا ہے۔ صحافی نے بیرون ملک نہ جانا ہوتا تو اس کا نام ای سی ایل میں شامل نہ کےا جاتا۔ سچ سامنے آنے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ اے پی این ایس اور سی پی این ای کے عہدیداروں سے آج مےری ملاقات ہو رہی ہے جس میں اس خبر پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا جائے گا اور میں ان کے سامنے حکومتی نکتہ نظر سامنے رکھوں گا۔ نادرا ہےڈ کوارٹرز مےں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا بھارتی میڈیا نے اس خبر کے بعد واویلا مچا دےا کہ پاکستان سے متعلق جو بھارت کہتا تھا وہ بات سچ ثابت ہوگئی ہے۔ اس خبر کے ذریعے دشمن کے بیانیہ کی تشہیر ہوئی ہے۔ متنازعہ خبر کے معاملے پر وفاقی وزےر قانون و انصاف زاہد حامد کی سربراہی مےں انکوائری کمیٹی بن چکی ہے جو تحقیقات کر کے رپورٹ دے گی کہ اس خبر کی اشاعت کے حولے سے کےس بنتا ہے یا نہےں یہ تحقیقات آئندہ تین، چار روز میں مکمل ہو جائے گی۔ انہوں نے کہاکہ جب مطلوبہ رپورٹر نے بیرون ملک جانے کی کوشش کی تو پھر اس کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا اور اگر وہ بیرون ملک جانے کی کوشش نہ کرتا تو اس کا نام ای سی ایل پر نہ ڈالا جاتا۔ اگر یہ صحافی بیرون ملک چلا جاتا تو پھر حکومت پر الزام لگتا کہ حکومت نے خود خبر لگوا کر اس صحافی کو بیرون ملک فرار کرا دیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ انکوائری کمیٹی اس صحافی اور ان2 سے 3 افراد کے بیانات قلمبند کرے گی جن پر شک کےا جا رہا ہے کہ انہوں نے یہ خبر لیک کی ہے اگر یہ لوگ بھی بیرون ملک جانے کی کوشش کریں گے تو انہیں بیرون ملک نہیں جانے دیا جائیگا کیونکہ انکوائری کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ جس نے یہ خبر لیک کی ہے اسے کٹہرے میں لایا جائے جس کیلئے صحافی کا تعاون بہت ضروری ہے۔ انہوں نے اےک سوال کے جواب میں کہا کہ ای سی ایل میں کسی کا نام ڈالنا میرا اختیار ہے قانون کے مطابق صحافی کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی زیر صدارت ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں وزیر اعظم کے علاوہ 5 لوگ تھے جس میں 2 وفاقی وزیر اور وزیر اعلیٰ پنجاب بھی شامل ہیں۔ عسکری ذرائع کی طرف سے چھپنے والی خبروں پر وزیر داخلہ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کسی ذرےعہ کی خبروں کو نہیں مانتا اگر آئی ایس پی آر کی طرف سے خبر آئے تو اس کا جواب دینے کو تیار ہوں انہوں نے کہا کہ امریکہ جیسے ملک میں عدالتیں فیصلہ دے چکی ہیں کہ قومی سلامتی کے معاملے میں خبر کے ذرائع بتانے چاہئیں‘ آزاد میڈیا کا دل سے احترام کرتا ہوں‘ صحافی پر کسی قسم کا دباﺅ نہیں ڈالا جا رہا لیکن انکوائری ہو رہی ہے ‘ یہ مسلم لےگ (ن) کی حکومت ‘ فوج اور میڈیا کا نہیں ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے، اس خبر نے پاکستان کے دشمنوں کو ہمیں چارج شیٹ کرنے کا موقع دیا ہے ‘ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ متنازعہ خبر کس کے کہنے پر شائع ہوئی اس کے پیچھے کئی محرکات ہیں معاملات کھلنے دیں بہت کچھ سامنے آئے گا۔ دریں اثناءاے پی این ایس اور سی پی این ای کا وفد آج سرپہر تین بجے پنجاب ہا¶س میں وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان اور وزیراطلاعات ونشریات پرویز رشید سے ملاقات کرے گا۔ ملاقات میں انگریزی اخبار میں حال ہی میں شائع ہونے والی سیکیورٹی اجلاس بارے خبر اور اس سے متعلقہ امور پر بات چیت ہوگی۔ اطلاعات کے مطابق انکوائری کمیٹی نے سرل المیڈا کو طلب کیا ہے کمیٹی دو سے تین ایسے افراد کے بیانات بھی قلمبند کرے گی جن پر معلومات افشا کرنے کا شک ہے۔ ملکی، غیر ملکی صحافیوں، گروپوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے بیانات کے باوجود حکومت نے صحافی سرل المیڈا کے بیرون ملک جانے پر پابندی کے اقدام کا دفاع کیا اور اس خبر کے ذریعہ کے حوالے سے تحقیقات مکمل کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی نے کہا کہ سرل المیڈا کا نام ای سی ایل میں اس لئے درج کیا گیا کہ حکومت کو پتہ چلا تھا کہ وہ بیرون ملک جانا چاہتے ہیں انہوں نے کہا کہ المیڈا کو نہ تو ہراساں کیا جائیگا اور نہ ہی انتقام کا نشانہ بنایا جائے گا تاہم ان سے خبر کے حوالے سے پوچھا جائے گا ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم اس خبر کے مرکزی کردار کو ای سی ایل پر نہ رکھتے تو ہم پر یہ الزام لگتا کہ ہم نے اسے باہر جانے دیا ہے۔ انہوں نے بظاہر ڈھکے چھپے الفاظ میں بھارت کے حوالے سے کہا کہ اس خبر کے شائع ہونے سے ہمارے دشمنوں کو بیانات دینے کا موقع ملا، خبر سے دشمن ملک کے بیانیہ کو تشہیر ملی، انہوں نے اس خبر کو غلط قرار دیتے ہوئے سوال کیا کہ جب صحافی نے خود لکھا ہے کہ اجلاس کے تمام شرکاءسے رابطہ کیا گیا انہوں نے اس کی تردید کی تو پھر یہ کیسے شائع ہوئی، المیڈا کا کہنا ہے کہ انہوں نے بیرون ملک جانے کا اچانک فیصلہ نہیں کیا بلکہ 2 ماہ قبل اپنے اہل خانہ سے ملنے کے لئے جانے کا پروگرام بنایا تھا، انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنے گرین پاکستانی پاسپورٹ کی تصویر شائع کی ہے اور کہا ہے کہ وہ اس حوالے سے کوئی سودے بازی نہیں کریں گے، المیڈا نے کسی حکومتی انکوائری پینل کے سامنے پیش ہونے سے بھی انکار کیا ہے۔ وزارت داخلہ میں سرکاری ذرائع کے مطابق المیڈا سے وزیر قانون زاہد حامد نے پیر کو رابطہ کیا تاکہ مبینہ طور پر خبر لیک کرنے والے کے بارے میں پتہ چلایا جا سکے مگر المیڈا نے ملنے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ بیرون ملک جا رہے ہیں، نثار نے کہا کہ المیڈا کی جانب سے اس ٹوئٹ کے بعد کہ وہ خبر کے ہر لفظ پر قائم ہیں حکومت نے تحقیقات کا آغاز کیا حالانکہ اخبار نے حکومتی تردید بھی شائع کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی تحقیقات تین سے چار روز میں مکمل ہو جائے گی، اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ آیا کسی تحقیقاتی ایجنسی سے باقاعدہ تحقیقات کی ضرورت ہے یا نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پانچ اعلیٰ اہلکار ابتدائی تحقیقاتی ٹیم کا حصہ ہیں۔ ان میں فوج کے دو، وزیراعلیٰ پنجاب اور مجھ سمیت دو سینئر وزیر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ المیڈا کو انفارمیشن کا ذریعہ بننے والے دو تین افراد بھی تحقیقات میں شامل ہیں، ان کو بھی بیرون ملک نہیں جانے دیا جائے گا، تاہم انہوں نے ان افراد کے نام نہیں بتائے۔ بہت سے تجزیہ کاروں نے حکومتی انکوائری کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں، اعجاز حیدر نے نیوز ویک میں لکھا ہے کہ جو کچھ معلوم ہے اس سے مزید کیا حاصل ہو گا ان کے مطابق اس سے بظاہر سویلین حکومت نے رپورٹر کو استعمال کیا اور پھر اسے چھوڑ دیا، صحافی پر سفر پر پابندی کو عالمی میڈیا پر بڑے پیمانے پر کوریج ملی۔ گارڈین میں ہیڈ لائن تھی کہ ایک معروف پاکستانی صحافی کو ملک سے باہر جانے سے روک دیا گیا، وال سٹریٹ جرنل نے لکھا ہے کہ صحافی کے بیرون ملک جانے پر پابندی سول اور فوج کے درمیان دہشت گردوں کے خلاف لڑائی کے حوالے سے کشیدگی کو ظاہر کرتی ہے۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کے پہلے بھی فوج سے کشیدہ تعلقات رہے ہیں اور اخبار کے مطابق پاکستان میں بہت سے لوگوں کی قیاس آرائی ہے کہ حکومت نے یہ سٹوری لیک کی۔ انسانی حقوق گروپوں نے بھی اس پابندی کی مذمت کی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ صحافیوں کو کسی خوف کے بغیر کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اس سے قبل امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی بھی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔
صحافی/وزیر داخلہ