اے خدا جب کہ جدائی کا بیاں ہوتا ہے
زندگی کا ہر لمحہ کسی بھی راہنمائی کا محتاج رہتا ہے۔ یہ نظام کائنات جس میں انسان کو اشرفیت کا تاج عطا ہوا ہے پھر اس نظام میں والدین کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ شاید ہی کسی بھی کامیابی میں ان کا عمل دخل موجود نہ ہو، والدین ایک حقیقی سرمایہ حیات ہوا کرتے ہیں۔ نظام تخلیق میں تو اتنی اہمیت ہے کہ انسان کی محتاجی سب پر عیاں ہے۔خوراک، تربیت، علم، حوصلہ، زندگی میں بڑھنے کی خواہش کو مضبوط تر کرنے کیلئے بھی والدین کی توجہ کی چھتری ہی زندگی کی مشکل اور کڑی دھوپ میں فرحت بخش سایہ عطا کرتی ہے۔ ماں کی ممتا اور باپ کی شفقت کے بغیر بلندی آسمان سے ڈر لگتا ہے کہ کسی لمحے سرپر نہ آن پڑے اور زمین اپنی وسعت کے باوجود پائوں کے نیچے سے کھسکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔والدین کی خاموش مروت کی برکات ہی ہوتی ہیں، جن سے اندر کاانسان خوشحالی کے رویوں سے واقف رہتا ہے۔ کسی بھی لمحے انجانا خوف اسی مروت کی برکت سے شجاعت میں بدلتا نظر آتا ہے۔
مجھے خوب یاد ہے کہ میرے ایک دوست اپنے والد گرامی کی تربیت کے سبب اپنی شہرت کی بلندیوں پر ہے۔ وجیھہ ایسے کہ صورت کا تاثر شرافت کی غمازی کرتا تھا۔ ذہین ایسے کہ کسی سے بات سنی تو پہلی ہی دفعہ میں ذہن کی لوح پرایسے مرتسم ہوگئی جیسے کسی نے گرم لوہے پر آثار کندہ کردئیے ہوں۔ روزانہ کی مجلس تھی اور وہ اپنے والد گرامی کا کوئی بھی حوالہ اس انداز اور اعتماد سے بیان کرتے تھے کہ ہمارے محسوسات پر بھی انکے والدین کی ذات کا تصور ایسا قابض ہوا کرتا ہے جیسے کسی نے جادو کردیا ہے اور اب یہ جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ حالات نے پلٹا کھایا اور ہماری روزانہ کی مجلس بھی ایک طویل عرصے تک کیلئے برخاست ہوگئی۔ تقریباً دو سال بعد وہ ملے تو چہرے کی وجاہت اور شخصیت کا طمطراق غائب تھا۔ گفتگو میں چاشنی کی جگہ تلخاہٹ نے لے لی تھی۔ اب باتوں میں بے ربطی سے انکی بکھری ہوئی شخصیت کی شکایت واضح ابھر رہی تھی۔ ہمت کر کے اس عجیب تبدیلی کی بابت پوچھا تو ایک آہ سرد بھری اور کہا کہ میرا سرمایہ حیات لٹ گیا ہے اور واپسی کی امید بھی ساتھ ہی لٹ گئی ہے۔ پوچھا کہ یہ استعاراتی باتیں کیا ہیں۔ جواب دیا کہ زندگی کا صدق سے بھرا ستعارہ ہی تو لٹ گیا ہے۔ میرا وجود جڑ سے کٹ گیا ہے۔ ہاں ہاں میری زندگی میں روشن برقی نظام میں اندھیرا آگیا ہے۔ مسلسل چیستانی گفتگو کر رہے تھے دھیمے انداز سے کہا کہ یار غازی تجھے معلوم نہیں کہ میرے والد گرامی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ مجھے اب باپ میسر نہیں اور ان کو قبر میں بیٹا میسر نہیں۔ اب یہ لمبی جدائی ہے…
بربط سوز پہ مضراب الم پڑتی ہے
اے خدا جب کہ جدائی کا بیاں ہوتا ہے
مجھے یہ باتیں اگرچہ متاثر تو کررہی تھیں لیکن جذبات اس درجہ متاثر نہ تھے اور میرا تاثر یہ تھا کہ یہ شخص جذبات سے مغلوب ہے۔ اس لئے اس نے یہ پیرایہ کلام اختیار کیا ہے۔چند سال بعد جب مجھے بھی ان حالات سے گزرنا پڑا۔ جو بالآخر فطرت کے مرتب کردہ نظام الاوقات کا جبری حصہ ہیں اور ہر انسان پر کسی نہ کسی وقت وارد ہو کر رہتے ہیں تو میرے احساسات نے ایک عجب سلسلہ اثر قبول کرلیا۔ جس سلسلہ اثر میں بے چارگی اور زندگی کی بے بسی کا مکمل ادراک آن دبوچتا ہے۔ یہی اکتوبر کا مہینہ تھا کہ مجھے بھی اپنی حسات کے شجر سایہ دار سے اچانک محروم ہونا پڑا۔ میرے والد، میرے معلم، میرے مربی اور میرے خیمہ حیات کے بلند رکن اور میری زندگی کی مرکزیت میرے میاں جی رحمتہ اللہ علیہ نے اس دنیا سے آنکھیں بند کر کے اگلی منزل حیات کی جانب توجہ کی اور دار فنا سے دار بقاء کا سفر اختیار کرلیا۔ اجلی سیرت اور پر نور صورت کا یہ سراپا اجلے کفن میں لپٹایوں محسوس ہوتا تھا کہ اب اس وجود متبرک پر فرشتے آسمانی رحمتوں کا سایہ کئے ہوئے ہیں۔ نالہ وشیون تھا کہ مجھے بے قراری سے آشنا کئے ہوئے تھا اور بے کلی کی اس حالت میں مجھے بھی اپنی زندگی بے مقصد اور انجانا سا بوجھ محسوس ہو رہی تھی۔ عجب سماں تھا کہ میرے اندر کا انسان حضرت والد گرامی کی مشفقانہ رفاقت اور پدرانہ جذباتیت کے وہ تمام مظاہر دہرا رہا تھا جن کی برکات نے میرے وجود میں حوصلہ زیست کے طوفان اٹھاتے تھے۔ مجھے ان کی تربیت کے وہ نرم گرم انداز بھی یاد آرہے تھے جب وہ اپنی جلالت ذات کیساتھ انداز جمال میں میری ایک ایک حرکت کو وقار حیات میں بدلنے کی مربیانہ کوشش فرماتے تھے۔ مجھے اپنا بچپن ان کی ذات سے جڑا ہوا نظر آرہا تھا۔ لڑکپن کی شوخیوں پر ان کی دلآویز نصائح کے اثرات آج بھی میری ذات کے شعور پر غالب ہیں، میرے انداز کلام میں ان کی تربیت کااعتماد مجھے مجبور کرتا ہے کہ میں ہرادائے لفظ کے ساتھ میاں جی کو ہدیہ تشکر پیش کروں۔
میرے والد گرامی نے حق تربیت کو اپنی عبادت ثانیہ بنالیا تھا۔ بروقت اور ہر مجلس میں مجھے ساتھ رکھتے تھے۔ کسی دوست نے ازراہ تفنن کہا کہ حافظ صاحب صاحبزادے کو کسی وقت تو گھر چھوڑ آیا کریں۔ حضرت میاں جی نے بہت اعتماد سے جواب دیا کہ بھائی یہ میرا بیٹا اللہ تعالیٰ کی امانت اور میں اس کی تربیت کا پوری طرح ذمہ دار ہوں، اہل دنیا سے ملاقات اور اہل معاشرہ سے اختلاط کے وقت ضروری ہے کہ اس بچے میں اخلاق رسولؐ موجود ہوں۔ بڑوں کا ادب اگر اسے نہ سکھایا تو مجھے اس کا قلق رہے گا۔ انسانوں سے وہ برتائو جو انسان پر واجب ہے۔ ایسا برتائو اولاد کی تربیت میں اتارنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ میاں جی تلقین کرتے تھے کہ بیٹا دینداری کے بغیر دنیا بھی چوپایوں کی زندگی خونخوار درندوں کی زندگی بن جاتی ہے۔ یہ نصیحت بھی بار بار فرماتے تھے کہ بیٹا دینداری کا راستہ ہی زندگی کا سیدھا راستہ ہے۔ لیکن اس راستے میں کھوٹ آجاتا ہے اگر تم دینداری کے راستے سے دنیا کمانے لگ جائو۔ اور زور دیتے تھے کہ دین کو ذریعہ معاش بنانے والے لوگوں میں کبھی بھی برکت نہیں رہتی اور وہ دوسرے انسانوں کیلئے بھی پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔