عوامی مسائل سے نڈر حکومت کے ناول کا نیا پلاٹ کیا ہے؟
فارسی ادب کا ایک افسانہ یوں ہے کہ ایک نہایت قابل پروفیسر کو ان کی خدمات کے عوض حکومت نے ’’عبقری‘‘ یعنی جینئیس کا خطاب بھی دیا اور ساتھ ہی گولڈ میڈل بھی پیش کیا۔ پروفیسر صاحب گھر پہنچے تو ان کی بیگم منہ پھُلا کر بیٹھ گئیں اور کہنے لگیں ’’مجھے آپ کی عبقریت اور دانشوری سے کیا لینا دینا میرے لیے سونے کے کنگن لاتے تو بات بنتی‘‘ بالآخر پروفیسر نے گولڈ میڈل بیج دیا اورسونے کے کنگن لے کر گھر آگیا تو بیوی نے خوش ہو کر کہا کہ آپ واقعی جینئیس ہیں موجودہ حکومت کی صورت حال تو سارا عرصہ یہی رہی ہے کہ انہیں کسی کے ’’عبقری‘‘ ہونے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے انہیں کسی کی دانش سے بھی کچھ لینا دینا نہیں ہے اسی لیے اس ملک کوترقی کی اس راہ پر گامزن کر دیا گیا ہے جہاں صرف سرمایہ دار طبقہ زندہ رہ سکتا ہے جبکہ غریب بجلی ‘پانی ‘ گیس اور روزگار کے بغیر ویسے ہی مر جائے گا اور ساری عیاشیاں چند لوگ مل کر کرتے رہیں گے یہاں ’’گولڈ میڈل‘‘ بیج کر سونے کے کنگن کی اہمیت زیادہ ہے پورے ملک میں یا تو ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہیں یا پھر ان کے اور ان کے رفقاء کے کارخانے ‘ فیکٹریاں ہیں یا پھر موٹروے کے چرچے ہیں جہاں کے پلوں اور سڑکوں پر سے کالی سیاہ گاڑیاں یا چند اور گاڑیاں دندناتی پھرتی ہیں کسی غریب ٹیکسی والے یا رکشے والے کا اس موٹر وے سے کوئی تعلق نہیں ہے بات یہاں تک رہتی تو بھی کوئی گنجائش نکلتی مگر اب تو صورتحال یہ سامنے آچکی ہے کہ جو زبان امریکہ بولتا ہے یا جو زبان مودی بولتا ہے وہ باتیں یہاں بھی ہونا شروع ہو چکی ہیں دو دن قبل ہی وزیراعظم نوازشریف سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ملاقات ہوئی اس ملاقات میں وزیرخزانہ اسحق ڈار‘ وزیر داخلہ چوہدری نثار ‘ وزیراعظم کے برادر خورد وزیراعلی پنجاب اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر بھی موجود تھے اجلاس کے بعد بڑا اچھا بیان سامنے آیا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں فوج اور ایجنسیاں قائدانہ کردار ادا کرتی رہیں گی لیکن ساتھ ہی ایک مضمون آ گیا اہم بات ہے کہ جو فوج دہشت گردی کے خلاف لڑ رہی ہے اور جن کی قربانیوں اور کوششوں کے بعد ملک میں امن کی جھلک دکھائی دی ہے انہی کے بارے میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ دہشت گردی کے خلاف نہیں۔اس وقت بھارت سرکار مودی جس طرح کی سازشوں میں ملوث ہے یا پھر امریکہ جو افغانستان میں ناکام ہو چکا ہے اور ان کا جان کیری کسی حد تک الزام پاکستان پر لگاتا ہے اور ان کے ساتھ ساتھ افغانستان کے اشرف غنی بھی اسی قسم کی بولی بولتے ہیں تو کیا خود ہمارے ملک کے اندر سے ہی وہ کلام کرنے کی گنجائش تھی جو ہمارے دشمنوں کو سُوٹ کرتا ہے کیونکہ یہ ہمارے ملک کی سلامتی کے خلاف ہے تین باتیں سمجھ میں آتی ہیں ایک تو امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا طریقہ ہے یا پھر عمران خان کے دھرنے کی وجہ سے ’’پانامہ لیکس‘‘ یا پھر کسی اور صورت حال میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہے یا پھر تیسری بات یہ ہوسکتی ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل کی اس انداز کی تراکیب سے ان کی ہر دلعزیزی کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن کسی کی سوچ کو وقت سے پہلے پڑھنا دشوار ہوتا ہے جب تک کہ وہ عملی اقدامات کرکے اپنی اصلیت نہیں دکھا دیتا یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمارے ادب میں ایسے ناول تخلیق کئے گئے ہیں کہ جس میں لاشعور میں پیدا ہونے والے خیالات کی بنیاد پر کہانی کا پلاٹ تخلیق کرلیا گیا تھا آئیر لینڈ کے انگریزی کے ناول نگار جیمز جوائس نے اپنے ناول Finnegan's wake کی کہانی اس طرح تخلیق ہوئی تھی کہ ہیرو ساری کہانی کے دوران سویا رہتا ہے لیکن ناول کے تمام واقعات اس کے لاشعور میں پیدا ہونے والے خوابوں پر چلتے رہتے ہیں دسمبر 2000ء میں ہالی وڈ امریکہ میں ایک فلم "Minority Report" کے نام سے آئی تھی اس فلم کی کہانی میں بھی فلم کا ہیرو ایک پولیس آفیسر ہوتا ہے اس پولیس آفیسر کے ذہن میںچلنے والی کہانی کو ایک ماہر شخص پہنچان لیتا ہے اور یہ بھی جان لیتا ہے کہ اگلے ایک دوروز میں اس پولیس آفیسر نے کس شخص کو کتنا نقصان پہنچانا ہے اور وہ حفاظتی اقدامات کرلیتا ہے اور پولیس آفیسر کو ایسے جرم سے بچا لیتا ہے جو اس نے ابھی کیا نہیں ہوتا ہمارے ہاں کالم نگار یا صحافی تو معلومات اور رپورٹنگ کے مطابق چلتا ہے اور اب پاکستان میں صحافیوں کو آزادی بھی ملی ہوئی ہے جو انہوں نے طویل جدوجہد کے بعد حاصل کی ہیمحب وطن صحافی یا کالم نگار حق سچ کی بات لکھتے رہتے ہیں اور کسی کا آلہ کار بن کر کام نہیں کرتے مگر اہم نقطہ یہ ہے کہ یہ کس کے لاشعور کے خیالات ہیں جو پورے ناول کا پلاٹ بنا رہے تھے لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ امریکی فلم کی کہانی کی طرح لاشعور کے جرم کو لوگوں نے سمجھ لیا ہے لیکن اس جرم کے تدارک کے لیے اگر جرم مرتکب کرنے سے پہلے اقدامات کر لیے گئے تو کیا ہوگا؟ کیونکہ پاکستان کو پُرامن بنانے کی جنرل راحیل کی کوششوں کے بعد لوگوں کے ذہن ودل سے ان کی ہردلعزیزی اور محبت کو کم نہیں کیا جاسکتا ہے جبکہ عمران کے دھرنے سے پہلے یہ حکومت عوام کی طرف سے اتنی نڈر اور بے خوف ہو چکی ہے کہ گیس کی قیمتوں میں 36% اضافہ کررہی ہے لوگوں کے گھروں کے چولہے سردیوں کے آنے سے پہلے ٹھنڈے کر دئیے گئے ہیں بجلی کے بحران کے حل کا وعدہ پہلے ہی پورا نہیں کیا گیا جبکہ بجلی اور گیس کے بل قیامت خیز ہیں ان حالات میں ’’حفاظتی اقدامات‘‘ حکومت اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے تو کرسکتی ہے مگر عوام کے دل جیتنا اب دشوار ہو چکا ہے ۔