• news
  • image

36 افراد کے پاس 20 کروڑ لوگوں کا مقدر

آئس برگ پانی سے اوپر کم نظر آتا ہے جبکہ اس کا زیادہ بڑا حصہ سمندر میں چھپا ہوتا ہے۔ آئس برگ کے راستے سے گزرنے والے بحری جہاز کا کیپٹن اگر سمندر کے اوپر نکلے ہوئے آئس برگ کے حصے کو دیکھ کر یہ فیصلہ کر لے کہ اُس کے قریب جانے پر ہی بچاﺅ کا راستہ اختیار کرے گا تو ایسی صورت میں آئس برگ کے ظاہری حصے کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی بحری جہاز تباہی سے دوچار ہو سکتا ہے کیونکہ آئس برگ کی جڑیں سمندر میں دور تک پھیلی ہوتی ہیں۔ بحری جہاز انہی جڑوں جن کے اوپر سمندر کا پُرسکون پانی ہوتا ہے سے اُلجھ کر مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔ انگریزی اخبار کو خفیہ خبر دینے کا معاملہ بھی آئس برگ جیسا ہی ہے۔ خبر لیک کرنے والے خفیہ ذرائع کے حوالے سے ہرطرح کے تجزیے کئے گئے۔ اِن میں ایک اور تجزیے کو دو مختلف انداز سے شامل کر لیتے ہیں۔ پہلا یہ کہ حکومت جمہوری وکٹ پہ فرنٹ فُٹ پر کھیل کر جمہوری طاقت کا لوہا منوانا چاہتی تھی۔ اس کا سلسلہ خبر کی اشاعت سے چند دن پہلے اعتزاز احسن کی پارلیمنٹ میں تقریر سے جوڑا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے انٹرنیشنل فورمز میں پاکستان کی تنہائی اور وزیر خارجہ کی تقرری نہ ہونے کو لے کر حکومت کو خوب لتاڑا۔ اس تقریر کے فوراً بعد جو مذکورہ متنازع خبر شائع ہوئی اس میں بھی بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی تنہائی کو ہی مرکزی نکتے کے طور پر پیش کیا گیا۔ خبر کی اشاعت کے فوراً بعد خورشید شاہ نے پیشین گوئی کی کہ جلد ہی وزیر خارجہ کا تقرر ہو جائے گا۔ اس خبر کی آﺅٹ لائن کی خالی جگہوں کو پُر کرکے پڑھیں تو یہی نقشہ بنے گا کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں یعنی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اہم فیصلے سٹیبلشمنٹ سے کروانے کی بجائے خود کرنے کے لئے چارٹر آف ڈیموکریسی کو مزید مضبوط کیا ہے۔ اسی تجزیے کا دوسرا سٹائل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک بڑی سیاسی جماعت نے ”سولو فلائٹ“ کا جوا کھیلا ہو یعنی مختلف پریشرز کی شکار حکومت کے آفس میں نقب لگا کر معلومات حاصل کر لی گئی ہوں اور انہیں انگریزی اخبار تک پہنچا دیا گیا ہو تاکہ بات بین الاقوامی سطح تک جائے۔ اس سے مذکورہ جماعت کو تین فائدے ملنے کی توقع تھی۔ پہلی ےہ کہ سِول ملٹری تعلقات شک و شبہے کا شکار ہوں گے۔ دوسری یہ کہ الیکشن تک کے آخری ڈےڑھ برس میں حکومت سِول ملٹری ٹینشن کی وجہ سے بہتر کارکردگی دکھا نہیں سکے گی اور اس طرح اُسے آئندہ عام انتخابات میں دھچکا لگ سکتا ہے جس سے اُس سیاسی جماعت کو پنجاب میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے میں کچھ نہ کچھ ضرور مدد ملے گی۔ تیسرا یہ کہ اُس سیاسی جماعت نے حکومتی جماعت کے نقصان کی پرواہ کئے بغیر سٹیبلشمنٹ کو بدنام کرنے کا خفیہ وار کیا ہو کیونکہ سٹیبلشمنٹ کے بارے مےں اُس سیاسی جماعت کے دل کبھی بھی صاف نہیں ہوئے۔ قومی سلامتی کی مذکورہ خبر کی اشاعت سے جمہوریت شک میں آئی یا مضبوط ہوئی؟ کس سیاسی جماعت کو فائدہ ہوا یا نقصان؟ اس کا ٹھیک ٹھیک پتہ بعد میں چلے گا، فی الحال ملک کے امیج کو نقصان ہوا۔ اس لئے ہر دو انداز مےں معاملہ سیاسی مفادات کا ہی ٹھہرا۔ ایک اور معاملے کو دیکھتے ہیں۔ خورشید شاہ نے نواز شریف کے اس بیان، جس میں نواز شریف نے عمران خان کو کہا تھا کہ ”تم ڈگڈگی بجاتے رہو“ کی تشریح اپنے انداز مےں کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”نواز شرےف نے یہ جملہ عمران خان کے لئے نہیں بلکہ غیر سیاسی لوگوں کے لئے کہا ہے۔“ سوال یہ ہے کہ اگر نواز شریف کا مطلب عمران خان نہں تھا تو خورشید شاہ کو اس کی تشریح کی کیا ضرورت تھی؟ یا اگر نواز شریف کا وہی مطلب تھا جو خورشید شاہ نے سمجھا ہے تو تب بھی وضاحت کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کام تجزیہ نگار یا اینکر پرسنز کر لیتے۔ نواز شریف کے جملے کو آسان اردو میں بیان کرنے کی خورشید شاہ کی کوشش سٹیبلشمنٹ کو کوفت پہنچانے کی حرکت سمجھی جا سکتی ہے۔ یعنی یہاں بھی معاملہ ملکی سکون کی بجائے سیاسی مفادات کا نکلا۔ اِن دونوں بڑی پارٹیوں کو ایک طرف رکھ کے دوسری سیاسی جماعتوں کا بھی سرسری جائزہ لے لیتے ہےں۔ ایم کیو ایم کے کئی دھڑے پنجہ آزمائی سے بڑھ کر خون آزمائی کےلئے تیار ہیں۔ اُن سے ایسی توقع رکھنا جائز ہے کیونکہ یہ دھڑے اےک دوسرے پر ایسی ہی سابقہ خون آلود کاروائیوں کے سنگین الزامات لگا رہے ہیں۔ سوچا جائے تو ایم کیو ایم کے انہی دھڑوں کے لوگ ہوں گے جنہوں نے ماضی میں بے تحاشا گھناﺅنی کارروائیاں کیں۔ دیکھا جائے تو جب ایم کیو ایم متحد تھی تب بھی کراچی اور حیدرآباد میں دودھ کی نہریں نہیں بہتی تھیں۔ اب ایم کیو ایم کے ٹکڑوں کی سیاسی مفادات کی لڑائی مزید بدامنی کا باعث ہو گی۔ پی ٹی آئی عام لوگوں کے لئے کتنے سکون کا باعث ہے؟ یہ پوچھنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی ہزاروں ہارس پاور کے سٹارٹ جنریٹر کیساتھ چارپائی ڈال کر سونے کی کوشش کرے۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ جنریٹر کا خوفناک شور اور دھواں اُس شخص کی نیند کو ہزاروں میل دور بھگا دے گا۔ پی ٹی آئی کی روڈ جام کرنے کی کاروائیوں، عمران خان کی بدتہذیب بڑھکوں اور اب اسلام آباد بند کرنے کی دھمکیوں سے عام لوگ کتنے خوش اور پُرسکون ہوں گے اس کا اندازہ اوپر دی گئی جنریٹر کی مثال سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ چھوٹی جماعتیں یعنی جماعت اسلامی، جے یو آئی ف، اے این پی، عوامی لیگ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور دیگر ننھی منی جماعتیں بھی دہکتے انگاروں سے کم نہیں۔ یعنی عام لوگوں کو یہاں بھی ٹھنڈک کی بجائے آگ کی تپش ہی ملے گی۔ سیاسی جماعتوں کے علاوہ ہمارے کئی ٹاک شوز اور جلتی بُجھتی خبروں کے کئی رپورٹر یا کالم نگار وغیرہ بھی بدسکونی کی بدخبری پھیلانے میں پیش پیش رہتے ہیں اور یہی اُنکی ریٹنگ کی کامیابی ہے۔ انکی تعداد 36 سے زیادہ نہیں۔ اس لئے لوگوں کا ذہنی سکون ختم ہو چکا ہے۔ کیا یہی جمہوریت ہے؟

epaper

ای پیپر-دی نیشن