’’کھلے آسمان تلے مفت تعلیم‘‘ اسلام آباد کے غریب ترین بچوں کیلئے 30 سال سے امید کی کرن بنا ماسٹر ایوب کا سکول
اسلام آباد (اے ایف پی) اسلام آباد میں سڑکوں پر گاڑیاں صاف کرنے والے‘ ہوٹلوں پر کام کرنے والے غریب ترین بچوں کو بھی علم کی روشنی فراہم کرنے والا ایک سکول 30 سال سے قائم ہے۔ تعلیم سے والہانہ محبت کرنے والے ماسٹر محمد ایوب 30 سال سے کھلے آسمان تلے شہر کے غریب ترین بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرکے جہالت کے اندھیروں سے نکال کر باعزت روزگار حاصل کرنے کے قابل بنا رہے ہیں۔ ماسٹر محمد ایوب کا تعلق منڈی بہائوالدین سے ہے۔ انہوں نے میٹرک کر رکھا ہے۔ غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر انہیں خود کو کالج چھوڑنا پڑا‘ تاہم انہوں نے ہزاروں بچوں کو تعلیم دیکر ایسی محرومی سے بچا لیا۔ دن کے وقت میں بم ڈسپوز کرنے کی اپنی نوکری کے بعد ماسٹر ایوب سائیکل چلا کر کچی آبادی پہنچتے ہیں اور دیوار‘ چھت اور بجلی سے محروم اپنے عارضی سکول میں بچوں کو پڑھانا شروع کر دیتے ہیں۔ ان سے پڑھے کئی بچے سرکاری عہدوں تک پہنچ چکے ہیں۔ ماسٹر ایوب نے یہ سکول 1986ء میں شروع کیا تھا۔ انہوں نے بتایا میں اسلام آباد یہاں سڑکوں پر بچوں کو گاڑیاں صاف کرتے‘ بھیک مانگتے ‘ پھول فروخت کرتے اور کام کرتے دیکھتا تو دل کڑھتا تھا۔ ایک روز مارکیٹ میں کار صاف کرنے والے ایک بچے سے میں نے پوچھا تم سکول جانا چاہتے ہو۔ اس نے ہاں میں جواب دیا تو میں نے اسے کتاب‘ پینسل‘ کاپی اور ربڑ لیکر دی اور پڑھانا شروع کر دیا۔ اگلے روز وہ لڑکا اپنے ساتھ ایک اور لڑکا لے آیا۔ ایک ہفتے کے دوران 50 بچوں کی کلاس بن گئی۔ ان کا سکول ایک پارک میں ہے جو ایک غریب مسیحی برادری کی آبادی کے بھی قریب ہے۔ 20 سالہ فرحت عباس نے بتایا ماسٹر ایوب مجھے اندھیروں سے روشنی کی طرف لانے والے فرشتے ہیں۔ میں 9 سال کی عمر میں لکڑیاں اٹھاتا تھا۔ جب میں نے ماسٹر ایوب سے پڑھنا شروع کیا۔ ماسٹر ایوب نے بتایا آغاز میں بڑی مشکلات تھیں۔ حکام شک کی نظروں سے دیکھتے تھے کہ میں یہاں مسیحی بچوںکو کیوں پڑھا رہا ہوں۔ میں کہیں کوئی مشنری تو نہیں‘ تاہم بعد میں آسان ہو گئی۔ ماسٹر ایوب کو 2012ء میں وزارت تعلیم کی جانب سے یوارڈز دیئے گئے اور گزشتہ برس 2015ء میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ ماسٹر ایوب نے کہا اب مجھے سکول کیلئے عمارت کی ضرورت ہے۔
ماسٹر ایوب کا سکول